طالبان بین الاقوامی ذمہ داریوں میں اپنے من پسند کو قبول کرتے ہیں: اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ کی رپورٹ

افغانستان میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے روزا اوتن بائیفا نے سلامتی کونسل کو دی گئی رپورٹ میں افغانستان کی نازک صورتحال کی وضاحت کی ہے۔
انہوں نے طالبان کی جانب سے بین الاقوامی ذمہ داریوں میں اپنے من پسند کو قبول کرنے اور اس ملک میں بڑے پیمانے پر انسانی بحران کے خلاف خبردار کیا۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر تشویش پائی جا رہی ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ روزا اوتن بائیفا کی تازہ ترین رپورٹ میں اس ملک کی نازک صورتحال کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے۔
اوتن بائیفا نے کہا کہ طالبان حکام نے اپنے بین الاقوامی وعدوں میں سے من پسند کو قبول کیا ہے اور ان میں سے کچھ وعدوں کو ملک کی خود مختاری کو متاثر کرنے یا ان کی روایات سے متصادم ہونے کی بنیاد پر مسترد کر دیا ہے۔
یہ نقطہ نظر نہ صرف افغانستان کے سیاسی راستے کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس ملک کے عوام کی فلاح و بہبود کو بھی براہ راست متاثر کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے افغانستان کی نازک انسانی صورتحال کی خبر دیتے ہوئے بتایا کہ 23 ملین سے زائد افغانوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
خاص طور پر حالیہ مہینوں میں 200 سے زائد مراکز صحت کی بندش نے صحت عامہ اور بچوں کی غذائی قلت کے شعبہ میں سنگین مسائل پیدا کر دیے ہیں۔
دوسری جانب طالبان نے خواتین کے خلاف سنگین پابندیوں کے ساتھ انسانی حقوق کی صورتحال پر شدید دباؤ ڈالا ہے جس میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی بھی شامل ہے۔
خواتین کے لئے تعلیمی و تربیتی اداروں کی بندش سے صحت عامہ کی صورتحال بھی ابتر ہو گئی ہے۔
اوتن بائیفا نے افغان عوام کے بڑھتے ہوئے خدشات کو بھی اٹھایا اور مزید کہا کہ افغان ملک کے مزید تنہائی کے امکانات، استحکام اور انسانی حقوق کے فقدان سے خوفزدہ ہیں۔
اس صورتحال میں طالبان کو افغانستان کو بین الاقوامی برادری میں ضم کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو جامع اور موثر طریقہ سے قبول کرنے اور ان پر عمل درآمد کے لئے بنیادی اقدامات کرنے چاہیے۔