
بشار الاسد کے زوال کے بعد، شام ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جہاں روس کے ساتھ مذاکرات کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔
روس کو اپنے اسٹریٹجک اڈوں اور سفارتی حمایت کے بدلے ایک نئی قیمت چکانی پڑ رہی ہے، جس میں مالی معاوضے کے ساتھ ساتھ ملک کی بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی شامل ہے۔
کیا یہ معاہدے مغربی طاقتوں کی شام سے متعلق پالیسیوں میں کسی بڑی تبدیلی کا باعث بنیں گے؟
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور شام کے سیاسی ڈھانچے میں تبدیلی کے بعد، روس، جو شام میں ایک مرکزی کھلاڑی ہے، نئے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔
حمیمیم اور طرطوس جیسے اسٹریٹجک فوجی اڈوں پر موجود روسی افواج، جو مشرق وسطیٰ میں ماسکو کے اثر و رسوخ کے لیے اہم ہیں، اب شام کی عبوری حکومت کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں۔ اس حکومت کی قیادت احمد الشرع کر رہے ہیں۔
یہ مذاکرات بالخصوص روسی فوجی اڈوں کے مستقبل اور شام کے روس پر اربوں ڈالر کے قرضوں کے معاملات پر مرکوز ہیں۔
دوسری طرف، روس کو شام کے لیے سفارتی حمایت اور بنیادی ضروریات جیسے گندم اور ایندھن کی فراہمی کے بدلے اضافی ادائیگیوں اور نئے معاہدوں کا سامنا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماسکو ایک ایسے معاہدے کی تلاش میں ہے جو اس کے مفادات کا تحفظ کرے، چاہے اس کے لیے جنگ اور تباہی کے نقصانات کی تلافی بھی کرنی پڑے۔
دوسری جانب، مغرب، خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل، جو خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، ان تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اقتصادی اور سیاسی دباؤ کے باوجود، روس شام میں اپنی موجودگی پر اصرار کر رہا ہے اور عبوری حکومت پر اپنی شرائط مسلط کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتا ہے۔
کیا روس مغرب کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگا؟ اور ان تبدیلیوں کا شام کے سیاسی اور اقتصادی مستقبل پر کیا اثر پڑے گا؟ یہ سوالات تاحال جواب طلب ہیں۔