آیتالله العظمی شیرازی: جن لوگوں کو شریعت نے روزہ افطار کرنے کی اجازت دی ہے، ان کے لیے غیر حرام حالات میں روزہ افطار کرنا جائز ہے، لیکن واجب نہیں

مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ کا روزانہ کا علمی جلسہ حسب دستور یکم رمضان المبارک 1446 ہجری کو منعقد ہوا۔ جس میں گذشتہ جلسات کی طرح حاضرین کے مختلف فقہی سوالات کے جوابات دیے گئے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے بوڑھے مردوں اور بوڑھی عورتوں کے روزہ نہ رکھنے کے سلسلہ میں فرمایا: بعض فقہی کتابوں جیسے "عروۃ الوثقی” میں بوڑھے مردوں اور بوڑھی عورتوں کو روزے میں چھوٹ دی گئی ہے۔ البتہ روزہ نہ رکھنا ان پر واجب نہیں ہے بلکہ جائز ہے کہ وہ روزہ رکھ سکتے ہیں۔ سوره بقره آیت 184 میں ہے "وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ” روزہ رکھنا تمہارے لئے بہتر ہوگا اگر تم جان سکو۔ لہذا یہاں رخصت جواز کے معنی میں ہے واجب نہیں ہے۔

آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے فرمایا: البتہ اگر کوئی بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت جسمانی طور پر ایسی حالت کو پہنچ جائے کہ جہاں اس کے لئے روزہ رکھنا حرام ہے تو اس میں نہ صرف یہ لوگ بلکہ وہ تمام لوگ شامل ہیں جن کے لئے روزہ رکھنا سخت ہے حتی وہ بھی شامل ہیں جن کو ایسی شدید پیاس لگتی ہے جس کا برداشت کرنا ممکن نہیں ہے۔
واضح رہے کہ رخصت اور اجازت کا مطلب یہ ہے کہ شارع نے کسی کام کے انجام دینے کو لازم کرنے یا کسی کام سے روکنے کے بعد مکلف کی سہولت اور مشکلات سے بچنے کے لئے بعض شرائط اور حالات میں حکم کی پابندی نہ کرنے کی چھوٹ دی ہے۔
رخصت کے مقابلہ میں عزیمت ہے اور یہ شرعی احکام میں سے ہے کہ لغت میں جس کے معنی سہل اور آسانی پیدا کرنے کے ہیں اور اصطلاح میں مکلف کے لئے عذر اور آسانی کے پیش نظر پہلے دیے گئے حکم میں چھوٹ دی جائے اور اس کے بر خلاف انجام دہی کی اجازت دی جائے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے روزہ میں عزیمت کی بعض صورتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کتاب عروۃ الوثقی میں بیان ہوا ہے کہ عزیمت اور ضرر روزہ رکھنے میں پایا جائے تو روزہ رکھنا حرام ہے۔ کہ اس نظریہ میں مجھ سمیت بعض فقہاء تفصیل کے قائل ہوئے ہیں کہ اگر ضرر قابل تحمل ہے تو روزہ رکھنا جائز ہے اور اگر قابل تحمل نہیں ہے مثلا آنکھ کے نابینا ہونے کا سبب ہو تو روزہ رکھنا حرام اور باطل ہے۔

آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے جب روزہ کے سلسلہ میں مکلف اور ڈاکٹر کے فیصلے میں اختلاف ہو، فرمایا: عروۃ الوثقی میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے اور ظاہرا فقہاء کے درمیان اس مسئلہ میں تسالم پایا جاتا ہے کہ اگر ڈاکٹر بیمار سے کہے کہ روزہ اس کے لئے نقصان دہ نہیں ہے لیکن بیمار یہ سمجھتا ہے کہ روزہ اس کے لئے نقصان دہ ہے یا اس کے برعکس اگر ڈاکٹر مریض سے کہے کہ روزہ اس کے لئے نقصان دہ ہے لیکن بیمار یہ سمجھ رہا ہے کہ روزہ اس کے لئے نقصان دہ نہیں ہے۔ تو ایسے عالم میں خود مکلف کا فیصلہ معیار ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر عمل کرے۔ لیکن اگر شک ہو تو ڈاکٹر کا کہنا حجت ہے کیونکہ وہ اہل خبرہ اور ماہر ہے اور حدسیات میں ماہرین کا فیصلہ حجت ہے لیکن اگر بیمار اور ڈاکٹر کے نظریہ میں اختلاف ہو تو ایسی صورت میں خود بیمار کا فیصلہ معیار ہے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے فرمایا: بیماری کے سلسلہ میں لفظ کثیر یا قلیل کا استعمال نہیں ہوا ہے، سورہ بقرہ آیت 184 میں ہے "فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ” پس تم میں سے جو بھی مریض یا مسافر ہو۔ ظاہر ہے انسان دوسروں کے بنسبت اپنے حالات سے زیادہ واقف ہوتا ہے۔ اور سورہ احزاب آیت 6 میں ہے "النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ لوگوں پر خود ان سے زیادہ فوقیت رکھتے ہیں۔ (یعنی مومنین ان کے حکم اور ارادے کو اپنے حکم اور ارادے پر مقدم رکھیں اور اپنی جان و مال سے ان کی اطاعت میں تکلف نہ کریں۔) لہذا ہر ایک کو اپنے نفس اور اس سے متعلق تمام چیزوں پر ولایت حاصل ہے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے اس سلسلہ میں مستثنیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: لیکن 3 چیزوں کا تحمل کرنا جائز نہیں ہے اور وہ مستثنیٰ ہیں۔ اول: جائز نہیں ہے کہ انسان خودکشی کرے، دوسرے اس سلسلہ میں کوئی دلیل یا روایت نہیں ہے لیکن اجماع مسلم ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان خود سے ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے اس کا کوئی عضو یا طاقت برباد ہو جائے۔ مثلا اس کی آنکھ نابینا ہو جائے یا اس کا کان بہرا ہو جائے یا وہ گونگا ہو جائے یا اس کی انگلی کٹ جائے یا اس کا ہاتھ قطع ہو جائے کہ یہ تمام صورتیں جائز نہیں ہیں۔ تیسرے جیسا کہ میں نے عرض کیا اور اکثر فقہاء نے اس پر اعتراض نہیں کیا ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے قبول نہیں کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جائز نہیں ہے کہ انسان ایسا کوئی کام کرے جس سے اسے کوئی خطرناک بیماری جیسے کینسر ہو جائے اور اس کی دلیل دین داروں کا ارتکاز ہے، اس لئے انسان ان تینوں صورتوں میں اپنے جسم کو نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن دوسری صورتوں میں اسے اپنے جسم کے ساتھ کچھ بھی کرنے کا اختیار ہے اور فیصلہ اس کا اپنا ہے۔
واضح رہے کہ مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ کا روزانہ علمی جلسات آپ کے دفتر واقع ایران، قم مقدس، خیابان چہار مردان، کوچہ 6 میں ایرانی وقت کے مطابق صبح 11:15 بجے منعقد ہوتا ہے۔
آپ ان علمی جلسہ کو براہ راست امام حسین علیہ السلام سیٹلائٹ چینل یا فروکوئنسی 12073 پر دیکھ سکتے ہیں۔