اسلامی دنیاایشیاءخبریںعراقمقالات و مضامین

21 شعبان؛ صدام کے ہاتھوں ماہ شعبان1411 ہجری کو لوگوں کے قیام کو کچلنے اور شیعوں کی نسل کشی کا دن

21 شعبان 1411 ہجری کو شیعوں کے قیام کو کچلنے کے لئے صدام کی فوج نے مقدس شہروں کربلا اور نجف پر حملہ کیا اور شیعوں کا قتل عام کیا، جو عراق کی حالیہ دہائیوں میں شیعوں کے خلاف سب سے خونریز تاریخی جرائم میں سے ایک ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

ماہ شعبان اپنی مبارک عیدوں کے ساتھ ساتھ عراقی شیعوں حتی عالم تشیع کے لئے اپنی تلخ یادیں تازہ کرتا ہے، جس میں کربلا میں ہزاروں عراقی شیعوں کے قتل عام اور روضہ مبارک امام حسین علیہ السلام پر حملہ شامل ہے۔

1991 میں عراق کی بعث پارٹی کے خلاف عوامی اختلاف پورے عراق میں شمال سے جنوب تک پھیل گیا تھا۔

یہ قیام خلیج فارس کی جنگ اور سلامتی کونسل کی قرارداد 670 کے اختتام پر ہوا، جس میں عراقی فوج کی تمام فضائی نقل و حرکت حتی کہ ہیلی کاپٹرز پر بھی پابندی لگا دی گئی اور اس کے نتیجہ میں ملک کے بیشتر حصے کا کنٹرول عوام کے ہاتھ میں چلا گیا تھا۔

مظاہرین نے تھوڑے ہی عرصے میں بصرہ شہر پر قبضہ کر لیا اور اس قبضے کی خبر کے ساتھ ہی عراق کے بعض دوسرے صوبوں میں بھی لوگ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور یکے بعد دیگرے دوسرے شہروں پر قبضہ کر لیا گیا۔

کویت سے جنگ کے بعد عراق کے اقتصادی اور فلاحی انفراسٹرکچر کی تباہی، ایران سے جنگ سے بچا ہوا نقصان اور بعثی حکومت سے عوام کے عدم اطمینان کو صدام کے خلاف عراقی عوام کی بغاوت کے وجوہات میں شمار کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب بعث پارٹی اور صدام کے اقتدار میں آنے کے بعد تقریباً تین دہائیوں کے بعد حزب اختلاف کے گھٹن اور قتل کے حالات اور یکے بعد دیگرے خونریز بغاوتیں کہ جن میں بہت سے لوگوں کا قتل اور پھانسی ہوئی، یہ سب وہ عوامل تھے جنھوں نے عوامی قیام کو ہوا دی۔

بالکل یہی وہ وقت تھا جب عراق کے مختلف شہروں کے لوگوں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور عراق میں تقریباً ملک گیر بغاوت چھڑ گئی۔

شعبان 1411 میں عراقی عوام کے قیام میں عراق کے 18 صوبوں میں 14 صوبوں پر لوگوں نے قبضہ کرلیا اور مظاہرین نے دیالی، واسط، میسان، بصرہ، ذی قار، مثنی، قادسیہ، بابل، کربلا، نجف، دھوک، اربیل، کرکوک اور سلیمانیہ پر قبضہ کر لیا، صرف صلاح الدین، بغداد، نینوا اور انبار حکومت کے کنٹرول میں رہے۔

یہ قیام اتنی تیزی سے پھیلا کے دس دنوں میں حکومت کے قدم اکھڑ گئے اور حکومت حیرت زدہ تھی کہ ایسا کیسے ہو گیا۔

16 شعبان المعظم کو نجف اشرف میں روضہ امیر المومنین علیہ السلام کے گرد مظاہرین کی تحریک کا آغاز ہوا۔

یہ جھڑپیں 17 شعبان کی دوپہر تک جاری رہی اور مقبول گروہوں کی فتح شہر کے وسط میں سبز پرچم لہرانے کا باعث بنی۔

کربلا معلی میں عوام کا قیام 18 شعبان کو شروع ہوا تھا حالانکہ اس شہر میں 16 شعبان کو ہی چھٹ پٹ جھڑپے ہوئیں۔

کربلا معلی میں عوامی تحریک کا سلسلہ 3 روز تک جاری رہا اور تیسرے روز عوام نے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا۔

عراقی عوام کا شعبانیہ قیام 15 دن تک جاری رہا اور تقریباً دو ہفتوں میں عراق بعثیوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔

تاہم صدام کی بھاری فوجی طاقت اور عراقی صدارتی گارڈ میں اس کے وفاداروں نے بغاوت کو سختی سے کچل دیا۔

ان تنازعات کے دوران ہزاروں افراد مارے گئے اور تقریبا 20 لاکھ عراقی بے گھر ہو گئے۔

3 شہروں نجف، کربلا اور کرکوک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا اور کربلا اور نجف میں بعثی فوجیوں نے روضہ امیر المومنین علیہ السلام، روضہ امام حسین علیہ السلام اور روضہ حضرت عباس علیہ السلام کے علاوہ درجنوں مساجد، امام بارگاہوں اور دینی مدارس پر حملہ کیا۔

ان شہروں پر بعثیوں کے حملے میں بہت سے قیمتی نسخے بھی تباہ ہو گئے۔

بعثی فوج نے ہیلی کاپٹرس کی مدد سے لوگوں کو قتل کیا، بعثیوں نے دیواروں اور ٹینکوں پر یہ جملہ لکھا تھا۔

"لا شیعۃ بعد الیوم۔ یعنی آج کے بعد شیعہ نہیں ہوں گے۔”

قیام کے کچلنے کے بعد مرحوم آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابو القاسم خوئی رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے کئی گھر والوں اور کئی نزدیکی افراد کے ساتھ گرفتار کر کے بغداد لے جایا گیا اور چند دنوں کے بعد انہیں ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے صدام سے بات کرنے پر مجبور کیا گیا۔

کچھ نامور علماء اور آیۃ اللہ العظمیٰ خوئی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے نمائندوں کو پھانسی دی گئی اور کچھ نامور علماء کو عراق چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

عراق میں 2003 کے تنازعہ اور بعث پارٹی کے خاتمہ کے بعد 1999 کے واقعات کو دبانے کی تحقیقات عراق کی سپریم کرمنل کورٹ نے کی۔

اس کے بعد 14 متہم افراد کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور ان میں سے کچھ کو سزائے موت اور کچھ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button