افغانستانپاکستانخبریںدنیا

برطانیہ کی ایک مقامی کونسل نے ہزارہ برادری کی نسل کشی کو تسلیم کیا

برطانیہ کی ایک مقامی کونسل نے افغانستان میں ہزارہ برادری کی نسل کشی کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر جاری جبر کی مذمت کی ہے۔ یہ تاریخی اقدام ایک ایسے معاشرے کے لئے انصاف کی جانب ایک قدم ہے جو ایک صدی سے زائد عرصے سے امتیازی سلوک اور تشدد کا شکار ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

تاریخ کی خاموشی کے چلتے افغانستان کے مقامی لوگوں کے ایک اہم حصے کی جانب انصاف کی صدائیں گونج رہی ہیں جو برسوں سے مصائب، دباؤ اور نسل کشی کا سامنا کر رہے ہیں۔

برطانیہ کی اسٹافورڈ شائر کونسل نے پیر کو ہونے والے اجلاس میں 1891 اور 1893 کے درمیان ہونے والی ملینیم نسل کشی کو تسلیم کرنے کے لئے ایک تاریخی تحریک منظور کی۔

کئی دہائیوں کی خاموشی اور ناانصافی کے بعد ہونے والی اس کاروائی کو افغانستان میں ہزارہ اور شیعہ برادری کی تاریخی خوف و ہراس کی جانب ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔

اس کونسل نے ہزارہ برادری پر ہونے والے ظلم و ستم کی بھی مذمت کی جو آج تک جاری ہے اور اس بات پر زور دیا کہ یہ معاشرہ اب بھی منظم امتیازی سلوک اور ٹارگٹڈ تشدد کا سامنا کر رہا ہے۔

19ویں صدی کے آخر میں ہزارہ نسل کشی افغانستان کے تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں سے ہے۔

ان برسوں میں ہزاروں ہزارہ برادری کو ان کی نسلی اور مذہبی وابستگیوں کے سبب قتل کیا گیا، ان کے گھر تباہ کئے گئے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا گیا۔

یہ تباہی جس کا حکم افغانستان کے اس وقت کے امیر عبدالرحمن خان نے دیا تھا، نہ صرف ایک انسانی المیہ تھا بلکہ ہزارہ برادری کی شناخت اور ثقافت کو مٹانے کی ایک منظم کوشش بھی تھی۔

لیکن ہزارہ اور شیعوں کا درد یہاں ختم نہیں ہوا۔

حالیہ دہائیوں میں یہ معاشرہ بار بار انتہا پسند گروہوں کے ٹارگٹ اور پر تشدد حملوں کا نشانہ بنا ہے۔

1998 میں مزار شریف کے قتل عام سے لے کر ہزارہ علاقوں کے خلاف طالبان کے حالیہ حملوں تک اس نسلی مذہبی گروہ کے خلاف تشدد جاری ہے۔

شیعہ اپنے مذہبی عقائد کے سبب متعدد بار مساجد اور ثقافتی مرکز میں خودکش حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔

نسلی اور مذہبی طور پر محرک ان حملوں نے نہ صرف ہزاروں بے گناہوں کی جانیں لی ہیں بلکہ اس کمیونٹی کو خوف اور تنہائی میں رکھنے کی کوشش بھی کی ہے۔

اسٹافورڈ شائر کونسل نے اپنے بیان میں برطانوی حکومت سے کہا کہ وہ باضابطہ طور پر ہزارہ برادری کی نسل کشی کو انسانیت کے خلاف جرم کے طور پر تسلیم کرے۔

نیز کونسل نے طالبان کی جانب سے ہزارہ برادری پر مسلسل جبر کی مذمت کی اور اس گروپ کو جواب دہ بنانے کے لئے بین الاقوامی شرکت داروں کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

اس کونسل کی دیگر درخواستوں میں ہزارہ پناہ گزینوں کو انسانی امداد فراہم کرنا، انصاف کے حصول کے لئے اس کمیونٹی کی کوششوں کی حمایت کرنا اور شعور بیدار کرنا شامل ہیں، عوامی سطح پر ہزارہ برادری کی نسل کشی تاریخی ہے۔

اگرچہ اسٹافورڈ شائر کونسل کا یہ اقدام امید اور انصاف کی علامت ہے لیکن یہ افغانستان میں ہزارہ اور شیعوں کے حقوق کے حصول کے لئے ایک طویل سفر کا آغاز ہے۔

عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ ہزارہ برادری کی آواز کو زیادہ سنیں اور ان کے تاریخی مصائب کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔

کیونکہ عدل و انصاف نہ صرف ماضی کے درد کی پہچان ہے بلکہ تمام لوگوں کے لئے محفوظ اور منصفانہ مستقبل کی ضمانت بھی ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button