16 شعبان المعظم، یوم وفات باقر العلوم آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد باقر رضوی رحمۃ اللہ علیہ
![](https://shiawaves.com/urdu/wp-content/uploads/sites/5/2025/02/photo_2025-02-15_09-03-33.jpg)
آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد باقر رضوی اعلیٰ اللہ مقامہ 7 صفر المظفر 1286 ہجری کو وزیر گنج لکھنو میں پیدا ہوئے۔ دادیہال اور نانیہال دونوں اعتبار سے آپ کا تعلق بر صغیر بلکہ عالم تشیع کے مشہور و معروف دینی اور علمی خانوادہ سے ہے۔ آپ کے دادا آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ، والد ماجد فقیہ احسن نادرۃ الزمن آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف بہ آغا ابّو رحمۃ اللہ علیہ تھے اور آپ کے نانا آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقوی غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے جنت مآب آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد تقی نقوی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔
سرکار باقرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف بہ آغا ابّو رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔ اسکے بعد فقہ و اصول کی مقدماتی تعلیم فقیہ اعظم مفتی سید محمد عباس موسوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردان رشید محقق کامل مولانا شیخ تفضل حسین طاب ثراہ فتح پوری اور عالم جلیل مولانا سید حیدر علی طاب ثراہ سے حاصل کی اور اپنے والد ماجد کے درس میں شامل ہوئے اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ جیسا کہ آپ کے والد ماجد نے بعض اکابرین سے فرمایا تھا کہ "الحمد للہ سید محمد باقر سلمہ درجہ اجتہاد پر فائز ہیں۔”
درجہ اجتہاد پر فائز ہونے اور اکثر اسلامی علوم عربی ادب، فقہ، اصول، فلسفہ، منطق، حدیث، تفسیر اور درایت میں کامل تسلط کے باوجود جب تک نجف اشرف جا کر باب مدینۃ العلم کی بارگاہ میں کسب فیض نہیں کیا تب تک کسی کو اپنی تقلید کی اجازت نہیں دی۔
1302 ہجری میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ نجف اشرف تشریف لے گئے لیکن عام طلاب کے برخلاف اپنی علمی استعداد کے سبب ابتدائی دروس کے بجائے صاحب کفایۃ الاصول آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد کاظم خراسانی المعروف بہ آخوند خراسانی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ مرزا خلیل تہرانی رحمۃ اللہ علیہ، صاحب (کتاب) عروۃ الوسقیٰ آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم یزدی رحمۃ اللہ علیہ، صاحب مستدرک الوسایل آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ میرزا حسین بن محمد تقی بن علی محمد نوری طبرسی المعروف بہ محدث نوری رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ العظمیٰ محمد حسین شہرستانی رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم علماء اور فقہاء کے درس خارج میں شرکت کی۔
نجف اشرف سے جب لکھنو واپس آئے تو آپ کے والد کے مقلدین نے آپ کی جانب رجوع کیا۔ نیز ملک کی مشہور شیعہ دینی درس گاہ سلطان المدارس جو آپ کے والد مرحوم کی یادگار ہے اس کے مدرس اعلیٰ مقرر ہوئے۔ آپ کے علم، زہد و تقویٰ کی شہرت ہوئی تو پورے ملک (ہند و پاک) سے علوم آل محمد علیہم السلام کے مشتاقان کا لکھنو آنے کا سلسلہ جاری ہو گیا۔
آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست سے جن میں مفتی اعظم آیۃ اللہ سید احمد علی موسوی رحمۃ اللہ علیہ، ظفرالملت آیۃ اللہ سید ظفرالحسن رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ سید راحت حسین گوپالپوری رحمۃ اللہ علیہ، عمدۃ العلماء مولانا سید کلب حسین نقوی طاب ثراہ اور سید العلماء مولانا سید علی نقی نقوی رحمۃ اللہ علیہ کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں۔
سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کے نمایاں کارناموں میں سے ایک میڈکل کالج کے سامنے مدرسہ سلطان المدارس کی ذاتی عمارت ہے جسمیں آج بھی مدرسہ قائم ہے۔ جبکہ اس سے پہلے مدرسہ کی اپنی کوئی ذاتی عمارت نہ تھی۔
سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ نے مساجد کی تعمیر و تجدید کی تحریک چلائی تا کہ مساجد آباد ہوں اور انمیں نماز جماعت کا سلسلہ جاری ہو۔ آپ نے بہت سی مساجد کی تجدید فرمائی۔ اسی طرح بہت سی مساجد آپ کے ذریعہ تعمیر ہوئیں۔
آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد باقر رضوی کے علمی و قلمی آثار کی بھی طویل فہرست ہے اگرچہ ان میں سے بعض مفقود ہو چکے ہیں۔
مرحوم باقر العلوم شاعر بھی تھے۔ آپ نے اردو کے ساتھ ساتھ عربی زبان میں بھی اشعار کہے ہیں۔
آخر 16 شعبان المعظم 1346 ہجری بروز جمعرات صبح دس بجے یہ آفتاب علم و عمل کربلائے معلی میں غروب ہو گیا۔ مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور اپنے مولا و آقا امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں قتل گاہ کے قریب دفن ہوئے۔