طالبان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں سے عربوں افغانی کماتے ہیں
![](https://shiawaves.com/urdu/wp-content/uploads/sites/5/2025/02/image-138.jpg)
عالمی برادری کی خاموشی کے سائے میں طالبان نے افغان عوام کی جیبوں سے اربوں افغانی (روپئے) رقم نکال لی۔
نئے لیک ہونے والے دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ صرف 2023 میں ایم ٹی این ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی نے طالبان کو تقریبا 5 ارب افغانی کی ادائیگی کی، جبکہ لوگ اب بھی غربت اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی تیار کردہ رپورٹ پر توجہ دیں۔
افغانستان میں جہاں عوام ہر روز غربت اور عدم تحفظ کا شکار ہیں، طالبان نہ صرف اس ملک کے سیاسی تقدیر پر حکمرانی کرتے ہیں بلکہ عوام کی جیبوں پر بھی ان کا بھاری ہاتھ ہے۔
حال ہی میں سامنے آنے والے نئے دستاویزات نے ایک بڑا راز فاش کر دیا ہے۔
پچھلے 3 برسوں میں طالبان نے افغان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں سے اربوں افغانی جیب میں ڈالے ہیں۔
ٹیلی کام صارفین اور عام شہریوں کی جیبوں سے نکالے گئے یہ فلکیاتی اعداد و شمار ان غیر شفاف ٹیکس پالیسیوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو جاری ہیں۔
ان دساویزات کے مطابق صرف 2023 میں ایم ٹی این ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی نے طالبان کو 4.7 بلین افغانی کے مساوی رقم ادا کی۔
یہ اعداد و شمار اس بڑی آمدنی کا صرف ایک حصہ ہے جو طالبان نے اس طریقہ سے حاصل کئے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ٹیکس جو کہ اشرف غنی کے دور سے ٹیلی کمیونیکیشن صارفین پر 10 فیصد ٹیکس کے طور پر نافذ تھے اب بھی بغیر کسی تبدیلی کے جاری ہیں۔
لیکن اس بار ملک کی تعمیر نو کے لئے نہیں بلکہ افغان شہریوں پر مزید دباؤ ڈالنا ہے۔ یہ بڑی ادائیگیاں اس وقت کی جاتی ہیں جب افغانستان کے لوگ بنیادی خدمات تک کم سے کم رسائی کے ساتھ رہتے ہیں۔
ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک جو مواصلات اور ترقی کا ایک ذریعہ ہونا چاہیے طالبان کے لئے فنڈنگ کا ذریعہ بن چکے ہیں۔
وہ صارفین جو ہر ماہ اپنی معمولی آمدنی کا ایک حصہ انٹرنیٹ پیکجز یا فون کالز خریدنے کے لئے خرچ کرتے ہیں وہ انجانے میں طالبان کے مالی معاون بن گئے ہیں۔
آخر میں سوال یہ ہے کہ افغانستان کے عوام کو کب تک ایسی حکومت کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا جو نہ صرف ان کی ضروریات کو پورا نہیں کرتی بلکہ خدمت کرنے کے بجائے ان کے وسائل کو لوٹنے میں مصروف ہے۔
سیاسی اور سماجی کارکن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں کو ایک بار پھر اس مسئلہ پر مزید سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، اس سے پہلے کہ افغانستان مزید غربت اور عدم تحفظ کے دلدل میں ڈوب جائے۔