4 شعبان، یوم ولادت علمدار کربلا حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام
![](https://shiawaves.com/urdu/wp-content/uploads/sites/5/2025/02/عباس-2.jpg)
سن 26 ہجری کے ماہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ شعبان المعظم کی چوتھی تاریخ کو آسمان وفا پر چودہویں کا چاند نمودار ہوا یعنی مشکل کشاء کو اللہ نے باب الحوائج بیٹا عطا کیا کہ جو بیت وحی کی رونق اور امیرالمومنین علیہ السلام کے لئے سبب تسکین ہوا ۔
اسلام کے پہلے نمازی امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے نور نظر کو اپنی آغوش میں لیا اور ان کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور ‘‘عباس ’’ نام رکھا ۔ مولا علی علیہ السلام نے مولا عباس علیہ السلام کے بازؤوں کو چوما اور آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے ۔ یہ دیکھتے ہی جناب ام البنین سلام اللہ علیہا تڑپ گئیں اور گریہ کا سبب پوچھا تو مولا نے فرمایا : ائے ام البنین! یہ دونوں بازوں دشمن قلم کر دیں گے۔ یہ سننا تھا کہ مادر وفا نے بھی گریہ کیا اور پوچھا کہ مولا آخر میرے بچے کے بازو کیوں قلم ہوں گے ؟ مولا علی علیہ السلام نے فرمایا: نصرت حسین علیہ السلام میں عباس علیہ السلام کے بازو قلم ہوں گےجس کے عوض اللہ آخرت میں دو پر عطا کرے گا ۔ معتبر و مستند علماء کا بیان ہے کہ جناب ام البنین سلام اللہ علیہا نے جیسے ہی نام حسین علیہ السلام سنا مطمئن ہو گئیں۔
حضرت عباس علیہ السلام کے حُسن و جمال کا یہ عالم کہ قمر بنی ہاشم یعنی خاندان ہاشم کے ماہ منیر کہے گئے ، علم و معرفت کا یہ عالم کہ جس کی کماحقہ معرفت اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے سوا کسی کو نہ تھی اس نے معرفت عباس علیہ السلام پر اظہار خوشی کی اور پیشانی کا بوسہ لیا ۔ اسی طرح آپ کی شجاعت بھی بے نظیر تھی کہ آپ کو ثانی حیدر کہا گیا۔
جنگ صفین میں مولا عباس علیہ السلام کی عمر مبارک گیارہ سے بارہ برس تھی۔ لشکر شام میں ابو شعثا نامی پہلوان موجود تھا جس میں اتنی طاقت تھی کہ اگر کسی سکّہ کو انگلیوں سے دبا دے تو سکّہ کی تحریر مٹ جائے۔ ایسے بہادر اور طاقت ور کی موجودگی سے حاکم شام اور لشکر شام اپنی طاقت پر نازاں تھا ۔ گھماسان کا رن تھا کہ اچانک لشکر علی علیہ السلام سے علی علیہ السلام جیسا ایک نقاب پوش گھڑسوار کہ جس کا ظاہر بھی علی علیہ السلام جیسا، انداز بھی علی علیہ السلام جیسا تھا میدان میں آیا اور لہجہ علی علیہ السلام میں دعوت جنگ دی۔ حاکم شام نے ابوشعثا سے کہا کہ جاؤ اس جوان سے جنگ کرو۔
![](https://shiawaves.com/urdu/wp-content/uploads/sites/5/2025/02/5e809423175ce-1024x585.jpg)
اس مغرور نے یہ کہتے ہوئے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو بھیجا کہ اس جوان کے لئے یہی کافی ہے، لیکن ایک ہی حملہ میں وہ مغرور زادہ واصل جہنم ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے اس سے بڑے بیٹے کو بھیجا وہ بھی واصل جہنم ہو گیا ، تیسرے کو بھیجا وہ بھی جہنم کوسدھارا ، روایت کے مطابق ابوشعثا کے سات بیٹے تھے سب میدان میں آئے اور سب واصل جہنم ہوگئے تو تلملاتا ہوا وہ خود میدان میں آیا ، دو ہاتھ جنگ ہوئی اور وہ بھی اپنے بیٹوں سے ملحق ہو گیا۔
ابوشعثا کا مرنا تھا کہ لشکر شام میں کہرام مچ گیا کہ آخر یہ جوان کون ہے۔ ادھر خیمے سے شاہ ولایت امیرالمومنین علیہ السلام برآمد ہوئے تو میدان جنگ میدان حیرت بن گیا کہ یہ بھی علی علیہ السلام وہ بھی علی ۔ امیرالمومنین علیہ السلام نزدیک گئے ، اپنے فرزند کے چہرے سے نقاب ہٹائی تو لوگوں نے دیکھا کہ علی علیہ السلام نہیں بلکہ ثانی حیدر عباس علیہ السلام ہیں۔
حضرت عباس علیہ السلام امیر المومنین علیہ السلام، امام حسن مجتبی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے مطیع محض تھے۔
آپ کی وفا، شجاعت اور شہادت کتاب کربلا کے سنہرے ابواب ہیں۔
روایات کے مطابق ائمہ ہدی امام زین العابدین علیہ السلام سے لے کر حضرت ولی عصر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف نے آپ کی مدح فرمائی ہے۔