آیت اللہ العظمی شیرازی: قاضی اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کر سکتا
آیت اللہ العظمی سید صادق حسینی شیرازی کی روزانہ علمی نشست بدھ، 28 رجب 1446 ہجری کو منعقد ہوئی۔ اس نشست میں، حسب سابق، انہوں نے شرکاء کے مختلف فقہی سوالات کے جوابات دیے۔
آیت اللہ العظمی شیرازی نے قاضی کے اپنے علم پر عمل کرنے کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: شیعہ فقہا کی رائے کے مطابق قاضی کو اپنے ذاتی علم پر فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ وہ گواہی (بیّنہ) اور قسم (یمین) کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا پابند ہے۔
انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے طرزِ قضاوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دونوں ہستیوں نے اپنے فیصلے ذاتی علم کی بجائے شواہد اور گواہیوں کی بنیاد پر کیے۔
مزید برآں، انہوں نے وضاحت کی کہ اگر قاضی بہت زیادہ علم بھی رکھتا ہو، تب بھی اسے اپنے فیصلے گواہوں اور قسموں کی بنیاد پر ہی دینے چاہئیں۔
بعض افراد کی یہ رائے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ظہور کے بعد اپنے علم کی بنیاد پر فیصلے کریں گے—اس پر آیت اللہ العظمی شیرازی نے فرمایا کہ یہ نظریہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کی سیرت کے خلاف ہے اور اس کے حق میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ مشہور شیعہ فقہا کے نزدیک قاضی کو اپنے ذاتی علم پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ وہ صرف بیّنہ اور یمین کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ جو یقینی علم رکھتے تھے، جب فیصلہ سناتے تو فرماتے:
"اے لوگو! میں تمہارے درمیان صرف گواہوں کی شہادت اور قسموں کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں۔”
انہوں نے مزید فرمایا کہ اس حدیث میں "إِنَّمَا” کا لفظ استعمال ہوا ہے جو حصر کا مفہوم دیتا ہے، یعنی قاضی کو اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں، چاہے وہ شیخ انصاری یا شیخ طوسی جیسے جلیل القدر فقہا ہی کیوں نہ ہوں۔
آیت اللہ العظمی شیرازی نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کے عدالتی فیصلوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے علاوہ، حضرت علی علیہ السلام نے بھی اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں بیّنہ اور یمین کی بنیاد پر ہی فیصلے کیے۔
حضرت علی علیہ السلام کی قضاوت سے متعلق مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے بھی گواہوں اور شواہد کی بنیاد پر ہی فیصلے صادر فرمائے، اور ذاتی علم کو بنیاد نہیں بنایا۔
آیت اللہ العظمی شیرازی نے ان روایات کا حوالہ دیا جن میں ذکر ملتا ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ظہور کے بعد اپنے علم کی بنیاد پر فیصلے کریں گے۔ انہوں نے فرمایا:
"اگر اس حوالے سے کوئی صحیح روایت موجود ہے تو مجھے دکھائی جائے۔”
اس کے برعکس، دو صحیح روایات موجود ہیں جو اس نظریے کو رد کرتی ہیں۔ مزید یہ کہ اس حوالے سے جو 30 سے 40 روایات نقل کی جاتی ہیں، ان میں سے 30 سے زیادہ کا تعلق ایک ضعیف راوی سے ہے، جسے تمام محدثین نے کمزور قرار دیا ہے۔
انہوں نے آخر میں فرمایا کہ دو معتبر روایات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف بھی اپنے جد، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے طرزِ عمل پر عمل کریں گے، جو اپنے علم کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتے تھے۔