اسلامی دنیاافغانستانخبریں

طالبان کے جہادی اسکولوں کے برے نتائج اور منفی و خطرناک اثرات کے سلسلہ میں انتباہ

افغانستان ہیومن رائٹس سینٹر کی نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ طالبان جہادی اسکولوں کو وسعت اور نظام تعلیم کو تبدیل کر کے اس ملک کی آنے والی نسلوں پر انتہا پسند نظریہ مسلط کر رہے ہیں۔

فقہ جعفری کے مضامین کو نصاب سے حذف کرنا اور شیعہ کتب کو ہٹانا اس گروہ کی افغانستان میں مذہبی اور فکری تنوع کو دبانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

افغان ہیومن رائٹ سینٹر نے ایک نئی رپورٹ میں طالبان کے دور حکومت میں ظلم کی تاریکی کی خوفناک تصویر کشی کی ہے۔‌ یہ ایک ایسا ملک ہے کہ جس کے کونے کونے میں جہادی اسکول کھول کر زہر بویا جا رہا ہے۔‌

اس رپورٹ میں طالبان کی جانب سے نظام تعلیم میں بنام اسلام ایک انتہائی اور یکسر پڑھائی کو مسلط کرنے کی کوشش کا ذکر کیا گیا ہے ایک ایسی کوشش جو نہ صرف اس گروہ کے سیاسی اور نظریاتی مقاصد کو ظاہر کرتی ہے بلکہ افغان نسلوں کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈالتی ہے۔

پچھلے تین برسوں میں طالبان نے اس ملک کے تعلیمی نظام کو سفاکانہ انداز میں بدلنا شروع کر دیا ہے۔

اگرچہ وہ اصلاح اور تبدیلی کی بات کرتے ہیں لیکن جو کچھ ہو رہا ہے وہ مذہبی، فکری اور ثقافتی تنوع کا منظم طریقے سے خاتمہ ہے۔

فقہ جعفری کے مضامین جو کہ افغانستان میں شیعہ اور ہزارہ سماج کے ایک اہم حصے کا علمی اور روحانی ورثہ ہے، کو طالبان کے زبانی اور تحریری احکامات کے ذریعہ اسکولوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔

شیعہ کتب کو لائبریری کی الماریوں سے اکٹھا کیا گیا ہے گویا ان کتابوں کے صفحات اس گروہ کی انتہا پسندی کے خلاف گواہ ہیں۔

جہادی اسکول جو اب پورے افغانستان میں پھیل چکے ہیں نہ صرف تعلیمی اڈے ہیں بلکہ یہ وہ فیکٹریاں ہیں جو بچوں اور نوجوانوں کو انتہا پسندانہ نظریے کو تقویت دینے کے لئے ہتھیار بناتی ہیں۔‌

ان اسکولوں میں دی جانے والی تعلیم علم و دانش پر مبنی نہیں بلکہ نفرت، دشمنی اور دوسروں کو نظر انداز کرنے پر مبنی ہے۔

ان اسکولوں میں پروان چڑھنے والے بچوں کو کمسنی سے ہی خودکش حملے، جہاد اور مخالفین سے دشمنی جیسے تصورات سے متعارف کرایا جاتا ہے۔

اس نسل کی پرورش اس وقت ہوئی ہے جب ان کی نصابی کتابوں سے مکالمے، افہام و تفہیم اور بقائے باہمی کے معنی نکال دیے گئے ہیں۔

نصاب کی تبدیلی سے نہ صرف چند ابواب یا کتابیں ختم ہو رہی ہیں بلکہ کسی قوم کی تاریخ اور اجتماعی تشخص کو مٹانا ہے۔

اس اقدام سے طالبان نہ صرف شیعہ برادری کو ثقافتی طور پر ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ وہ ایک ایسے جامع تعلیمی نظام کی بنیاد کو بھی تباہ کر رہے ہیں جو آنے والی نسلوں کو جدید دنیا میں رہنے کے لئے تیار کر سکے۔

افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تعلیمی انقلاب نہیں بلکہ جہالت اور تعصب پر مبنی مستقبل کا منصوبہ ہے۔

اس دوران ان کاروائیوں کے خلاف عالمی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی تباہی کی گہرائی میں مزید اضافہ کرتی ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button