28 رجب الاصب، مدینہ منورہ سے امام حسین علیہ السلام کا سفر
28 رجب الاصب سن 60 ہجری کو امام حسین علیہ السلام نے اپنے اہل بیت کے ہمراہ مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا۔
حاکم شام کے دنیا سے گذرنے کے بعد اس کی وصیت کے مطابق اس کا نابکار بیٹا یزید ملعون اسلامی مملکت کا حاکم ہوا۔
یزید میں ہر طرح کا گناہ و فساد اور برائیاں موجود تھیں لیکن اس کے باوجود اس کے باپ نے اسے حاکم بنایا اور چاپلوسوں نے اس کی بیعت کی۔
یزید نے حاکم مدینہ کو خط لکھا کہ عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن عمر اور سید الشہداء امام حسین علیہ السلام سے بیعت لے لے اور اگر وہ لوگ بیعت سے انکار کریں تو ان کے سر قلم کر کے شام بھیج دے۔
حاکم مدینہ ولید نے مذکورہ تینوں لوگوں کو اپنے پاس بلایا تاکہ ان کو یزید کا پیغام پہنچا سکے۔ لیکن ان تینوں میں صرف امام حسین علیہ السلام ہی اس کے پاس گئے۔ باقی لوگ نہیں گئے بلکہ فرار کر گئے۔
ولید نے یزید کا پیغام امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا، جس پر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: جب تم سب لوگوں کو بیعت کے لئے بلاؤ گے تو میں بھی آؤں گا اور اس وقت اس کا فیصلہ ہوگا۔
ولید شجرہ خبیثہ بنی امیہ سے تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کے قتل کا الزام اس پر لگے لہذا اس نے امام کو رخصت دی۔ لیکن اسی وقت مروان نے گستاخی کی تو امام عالی مقام کی آواز بلند ہوئی جس پر مسلح ہاشمی جوان ولید کے دربار میں پہنچ گئے اور امام حسین علیہ السلام کو با عز و شان گھر واپس لے آئے۔
مروان نے دوسرے دن راستے میں امام حسین علیہ السلام سے یزید کی بیعت کی بات کی تو امام علیہ السلام نے فرمایا: "اگر یزید جیسا فاسق و فاجر اسلام کا حاکم ہو تو اسلام کا فاتحہ ہے. میرے جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔”
المختصر! امام حسین علیہ السلام نے اپنے اہل بیت کے ہمراہ مدینہ منورہ سے کوچ کیا۔
مرحوم میر انیس نے فرمایا
فرزند پیمبر کا مدینے سے سفر ہے
سادات کی بستی کے اجڑنے کی خبر ہے
در پیش ہے وہ غم، کہ جہاں زیر و زبر ہے
گل چاک گریباں ہیں صبا خاک بہ سر ہے
گل رو صفتِ غنچہ کمر بستہ گھڑے ہیں
سب ایک جگہ صورتِ گلدستہ کھڑے ہیں
کبھی جد بزرگوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ پر آئے۔ کبھی ماں کی لحد پر آئے تو کبھی بھائی کے مزار پر پہنچے اور ہر ایک سے رخصت ہوئے۔
28 رجب سن 60 ہجری کو جان مدینہ نے مدینہ کو خدا حافظ کہا۔
آج جو قافلہ مدینہ سے روانہ ہوا۔ اسمیں سب موجود ہیں لیکن جب یہ واپس آئے گا تو نہ امام حسین علیہ السلام ہوں گے، نہ عباس و اکبر ہوں گے، نہ قاسم و عون و محمد ہوں گے۔ بشیر کا مرثیہ ہوگا "حسین (علیہ السلام) کربلا میں قتل ہو گئے۔” خواہر حسین (علیہ السلام) کی فریاد ہو گی۔
نانا کے مدینے میرے آنے کو قبول نہ کرنا، جب ہم گئے تھے تو گودیاں آباد تھی لیکن اب اجڑ گئی ہیں۔