بامیان کی کان میں لوٹ مار، ہزارہ شیعوں کو مٹی، پشتونوں کو سونا
افغانستان کے غریب ترین صوبہ بامیان کے قلب میں ایک قیمتی خزانہ یعنی صوبہ بامیان کے کانوں کو ایک بار پھر لوٹا جا رہا ہے۔ اس بار ایک غیر منصفانہ معاہدے کی شکل میں جس کا فائدہ پشتون آباد علاقوں کو ہے اور شیعہ اور ہزارہ کو صرف نقصان ہی نقصان ہے۔
طالبان کے اس غیر منصفانہ فیصلے سے امتیازی سلوک اور نا انصافی بامیان کے پرانے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
ظلم اور امتیازی سلوک کے اندھیرے میں طالبان نے ایک بار پھر بامیان کے زخمی جسم پر نا انصافی کی ضرب لگائی ہے۔
اس بار ڈکیتی کی کہانی بندوق سے نہیں بلکہ قلم اور معاہدے سے ہے۔ بامیان کی کانیں ہزارہ برادری کے یہ پوشیدہ خزانے، قندھار، ارزگان اور ہرات میں سڑکوں کی تعمیر کے بدلے طالبان کے حوالے کر دیے گئے۔
بامیان میں جہاں غربت اور مشکلات کے سبب زمین کراہتی ہے اور بچے پتھر اور مٹی کی باہوں میں پروان چڑھتے ہیں اس کی کانیں جو خوش حالیوں کے بند دروازوں کی کنجی ہو سکتی ہیں، اسے لوٹا جائے گا تاکہ جنوب کے پشتون اپنے پیروں تلے نئے اسفالت کو محسوس کر سکیں۔
ان معاہدوں پر دستخط کر کے طالبان نے کھل کر شیعہ اور ہزارہ برادری کے خلاف منظم امتیازی سلوک اور جبر کا مظاہرہ کیا وہ لوگ جن کے حصے میں افغانستان برسوں سے صرف مصائب اور غربت کا شکار ہے۔
بامیان کی کانیں جن میں لوہے، سیسہ اور جاسٹ کے قیمتی ذخائر شامل ہیں، برسوں سے لٹیروں کے قبضے میں ہیں۔
اس سے قبل طالبان مختلف بہانوں سے ان کانوں کو نکال کر فروخت کرتے تھے لیکن اب یہ بھٹہ خوری سرکاری طور پر اور ٹھیکے کی صورت میں کی جا رہی ہے۔
بامیان کے رہنے والوں کو کان کی کھدائی سے دھول اور مٹی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
جبکہ ان قدرتی وسائل کے منافلع پشتون آباد علاقوں میں سڑکیں بنانے میں ہوتا ہے۔
بامیان جو افغانستان کے غریب ترین صوبوں میں سے ایک ہے، امتیازی سلوک اور مختلف نظاموں کے نظر اندازی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔
یہاں کے لوگ برسوں سے بہت ہی کم سہولیات پر زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ ان کی دولت ان لوگوں کے پاس ہے جنہیں نہ صرف فلاح و بہبود کی ضرورت ہے بلکہ ان لوگوں پر ظلم کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے پشتون صوبوں میں تعمیراتی منصوبوں کے بدلے بامیان کی کانے حوالے کرنے کے فیصلے کے قومی اتحاد، سماجی انصاف اور افغانستان کی معیشت پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔
ان کے مطابق طالبان کی یہ کاروائی افغانستان میں نسلی اور دینی تقسیم کو مزید گہرا کرے گی اور ہزارہ اور شیعوں میں نا انصافی اور ناراضگی کے جذبات کو تقویت دے گی۔
بامیان گوتم بدھ کے گرے ہوئے مجسموں اور اپنے لوگوں کے مصائب زدہ چہروں کے ساتھ ہمیشہ افغانستان کی تاریخ، ثقافت اور جبر و تشدد کی علامت رہا ہے۔
لیکن اس بار پرانی کہانیوں کے بجائے یہ مٹی نہ انصافی کا رونا چھپا رہی ہے۔
شاید ایک دن آئے جب بامیان امتیازی سلوک کا شکار نہیں بلکہ افغانستان میں انصاف اور ترقی کا نمونہ ہوگا۔
لیکن آج بھی یہ صوبہ امتیازی سلوک اور نا انصافی کی بوجھ تلے سانس لے رہا ہے ایک ایسا زخم جو بیداری اور تحریک چلانے سے ہی مندمل ہوگا۔