اسلامی دنیاافغانستانخبریں

طالبان حکومت میں وسیع پیمانے پر بدعنوانی، سرکاری عہدوں کی فروخت اور سرکاری اداروں میں بڑے پیمانے پر بھتہ خوری

بدعنوانی کے خلاف جنگ کے سلسلہ میں طالبان کے دعووں کے برخلاف، نئے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ گروپ کے اندر بدعنوانی، بھتہ خوری اور سرکاری عہدوں کی فروخت ایک عام بات ہو گئی ہے۔‌

سرکاری اور اندرونی ذرائع امدادی تنظیموں اور سرکاری اداروں پر مالی بدعنوانی اور بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے لئے دباؤ کی اطلاع دیتے ہیں۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

اگرچہ طالبان حکام ہمیشہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں بدعنوانی کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن حالیہ رپورٹس میں اس گروہ خاص طور پر سرکاری اداروں اور بین الاقوامی امدادی اداروں میں بدعنوانی کے پھیلاؤ کے ثبوت موجود ہیں۔

ان اداروں کے بہت سے مقامی عہدے داروں اور ملازمین نے خبر رساں ذرائع سے بات چیت میں سرکاری عہدوں کی فروخت اور اداروں اور ملازمت کے درخواست دہندگان سے بھتہ وصولی کے حوالے سے رپورٹس کا حوالہ دیا ہے۔

ہرات، سمنگان اور کابل جیسے مختلف صوبوں میں شفافیت کے اصولوں کا احترام کرنے کے بجائے طالبان کے اہلکار لوگوں اور بین الاقوامی اداروں سے پیسے بٹورتے ہیں۔

مثلا ہرات میں محکمہ صحت عامہ کے سربراہ نے ایک امدادی تنظیم کو دھمکی دی کہ وہ اپنا عہدہ برقرار رکھنے کے لئے 150000 ڈالر ادا کرے۔‌

اس کے علاوہ ان اداروں کے اہلکار مکان مالکان سے ان کی جائیدادوں کے کرائے کی مد میں زیادہ ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں اور ٹیکس کے بہانے ان سے رقم بٹورتے ہیں۔

طالبان میں بدعنوانی کا ایک پریشان کن ثبوت ملازمت کے متلاشیوں کو سرکاری عہدوں کی فروخت ہے۔

سمنگان صوبہ میں رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس گروہ کے اعلی اہلکار پیسوں کے عوض لوگوں کو مختلف عہدے تفویض کرتے ہیں۔ ٹیسٹ اور انٹرویو جیسے عمل کو ترک کر دیا گیا ہے۔

یہ کرپشن صرف بھتہ خوری تک محدود نہیں ہے۔ ذرائع نے طالبان کے بعد اہلکاروں کی جانب سے سرکاری اداروں میں خواتین ملازمین کے ساتھ جنسی زیادتی کی بھی اطلاع دی ہے۔

ان حالات میں میڈیا پر سخت پابندیوں اور احتجاج کو دبانے کے سبب افغانستان کے عوام طالبان حکومت میں وسیع پیمانے پر ہونے والی بدعنوانی کے خلاف عوامی سطح پر احتجاج کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

یہاں بدعنوانی کے خلاف جنگ کا دعوی کرنے والی طالبان حکومت کا اب اپنے نظام کے اندر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ جس کا بدعنوانی کے تسلسل اور شفافیت کے فقدان سے مستقبل غیر یقینی دکھائی دے رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button