طالبان کے تشدد سے شیعہ سول کارکن کی موت
کابل کے مغرب میں ایک شیعہ سول کارکن طالبان کی جیل سے رہا ہونے کے چند روز بعد دوران حراست تشدد کے باعث وفات پا گیے۔
یہ واقعہ افغانستان میں بڑے پیمانے پر من مانی گرفتاریوں اور انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزی کی ایک اور مثال ہے، خاص طور پر شیعہ اور ہزارہ کے خلاف طالبان کے دور میں۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں جبر اور تشدد کا ایک اور تلخ واقعہ رونما ہوا۔
ایک شیعہ سول کارکن حمزہ الفت جو صوبہ دائی کندی کے رہائشی تھے اور کابل میں قیام پذیر تھے، طالبان کی جیل سے رہائی کے چند دن بعد انتقال کر گئے۔
مقامی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اس سول کارکن کو دوران حراست شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ اس سول کارکن کو طالبان نے 9 فروری 2023 کو کابل کے مغرب میں دشت برچی کے علاقہ سے گرفتار کیا تھا۔
دریں اثنا، افغانستان کے لئے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینٹ نے اس واقعہ کی سنجیدہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
اتوار 19 جنوری کو انہوں نے ایکس ٹائپ پر ایک پیغام شائع کیا اور کہا کہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے اور اس کی تحقیقات اور جواب دینے کی ضرورت ہے۔
مقامی ذرائع اور انسانی حقوق کے کارکن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان نے ہزارہ شیعوں اور تاجیکوں میں سے تعلیم یافتہ نوجوانوں اور سماجی کارکنوں کو منظم طریقہ سے ختم کرنے پر مبنی پالیسی اپنائی ہے۔
من مانی گرفتاریاں اور منظم ٹارچر اس گروہ کی دہشت گردی کے ہتھیار بن چکے ہیں۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب چند روز قبل بامیان کے ایک شیعہ استاد سلیمان سامی کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
سلیمان سامی جو بامیان میں اپنی تعلیمی اور سماجی سرگرمیوں کے سبب مشہور تھے، کو یہ سنگین سزا قابل اعتماد ثبوت فراہم کئے بغیر اور ایک غیر معیاری عدالت میں سنائی گئی۔
اس کے علاوہ ایک شیعہ صحافی اور میڈیا کارکن مہدی انصاری کو حال ہی میں جیل کی سزا سنائی گئی ہے۔
ان واقعات پر بین الاقوامی رد عمل اب بڑھ رہا ہے، ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشل نے بیانات شائع کئے ہیں جن میں طالبان کے ان اقدامات کو انسانی حقوق اور افغانستان میں نسلی گروہوں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی صریح خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
حمزہ الفت کی موت، سلیمان سامی کی گرفتاری اور مہدی انصاری کی قید طالبان کے دور حکومت میں افغان عوام کے مصائب کا ایک حصہ ہے۔
ان جرائم کے خلاف عالمی برادری کی خاموشی نہ صرف انصاف کی راہ کو طول دیتی ہے بلکہ طالبان کو یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ وہ سزا کے خوف کے بغیر دباؤ جاری رکھ سکتے ہیں۔
آج افغانستان کی تقدیر ان لوگوں کے درد اور مصائب کی داستان ہے جن کی آوازیں خاموش ہو گئی ہیں لیکن جن کے زخم ابھی تک تازہ ہیں۔