لبنان : ۳؍ بچوں میں سے ایک بچہ بھوک کے شدید بحران کا شکار
سیو دی چلڈرن نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ’’لبنان میں ایک تہائی بچے (۲۹؍ فیصد بچے) نئے سال کے آغاز کے بعد ’’بھوک کے شدید بحران‘‘ کاشکار ہیں۔ کئی بچے اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کیلئے مزدوری کر رہے ہیں۔‘‘ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ’’گزشتہ ۵؍ ماہ میں’’بھوک کے شدید بحران‘‘ کا سامنا کرنے والے بچوں کی تعداد میں ۵؍فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘‘
آئی پی سی کا انکشاف
خیال رہے کہ انٹی گریٹیڈ فوڈ سیکوریٹی (آئی پی سی) کے یہ اعدادوشمار تب سامنے آئے ہیں جب اسرائیلی حملوں کے بعد لبنان میں بحالی کاکام کیا جارہا ہے۔ لبنان کے زراعتی پروڈکشن اور سپلائی چین کو اسرائیلی حملوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے۔یاد رہے کہ اسرائیلی حملوں کی وجہ سے لبنان کے ایک ملین سے زیادہ رہائشی افراد کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا تھا۔
سیو دی چلڈرن نے اپنی رپورٹ میں کیا کہا
سیو دی چلڈرن نے اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ ’’لبنان میں مارچ ۲۰۲۵ء سے ۵؍لاکھ ۲۶؍ ہزار بچےآئی پی سی کے فیز ۳؍ کی جانب سے مقرر کردہ ’’بھوک کے تباہ کن بحران‘‘ کا سامنا کر سکتے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے جب لبنان کے تاریخی شہر بعلبک میں آئی پی سی کی جانب سے مقرر کردہ فیز ۴؍، یعنی ’’بھوک کا شدید بحران‘‘ درج کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ لبنان کے خاندان بڑے پیمانے پر ناقص تغذیہ کا سامنا کر رہے ہیں۔ لبنان میں بچوں کو مزدوری اختیار کرنی پڑ رہی ہے اور شہری قرض کی ادائیگی کیلئے پریشان ہیں۔
شامی اور فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے مشکلات در مشکلات
لبنان میں سب سے زیادہ فلسطینی اور شامی پناہ گزین افراد پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ شامی اور فلسطینی پناہ گزینوں میں سے ۴۰؍ فیصد ’’بھوک کے انتہائی شدید بحران‘‘کا سامناکر رہے ہیں جو آئی پی سی کے فیز ۳؍ سے بھی زیادہ ہے۔لبنان میں سیو دی چلڈرن کی ڈائریکٹر جینیفر مورہیڈ نے کہا کہ ’’لبنان میں تقریباً ایک تہائی بچے ’’بھوک کے شدید بحران‘‘ کا سامنا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں صحت کے طویل مدتی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ناقص تغذیہ کا شکار بچوں کیلئے مہلک امراض کا سامنا کرنے کا خطرہ زیادہ ہے اور اس سے ان کی صحت کو طویل مدتی نقصانات ہوسکتے ہیں۔لبنان میں بچوں نے بمباری سے اپنی جانوں کی حفاظت شاید اسی لئے کی ہے تا کہ وہ ’’بھوک کے شدید بحران‘‘ اور ’’امراض‘‘ کا شکار ہوجائیں۔ ہم اسے ایک ’’عام رجحان‘‘ نہیں بنتا دیکھ سکتے۔‘‘