غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ؛ 15 ماہ کی خونریزی کا خاتمہ اور مشرق وسطیٰ میں امن کی امید
غزہ میں 15 ماہ کی خونریزی اور 46 ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد، حماس اور اسرائیل کے درمیان چھ ہفتے کے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں، جو مصر اور قطر کی ثالثی میں طے پایا ہے۔
یہ معاہدہ قیدیوں کے تبادلے اور اسرائیلی افواج کی واپسی پر مشتمل ہے اور خطے میں امن کی امید کو زندہ کیا ہے۔
ہمارے ساتھی كی ایک رپورٹ :
غزہ میں 15 ماہ کی خونریزی کے بعد، جس میں 46 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، بالآخر حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہو گیا۔
یہ معاہدہ مصر اور قطر کی ثالثی اور امریکہ کی حمایت سے عمل میں آیا ہے۔ معاہدہ چھ ہفتوں تک جاری رہے گا اور اس میں قیدیوں کے تبادلے اور اسرائیلی افواج کی غزہ سے واپسی کے نکات شامل ہیں۔
جنگ بندی کا یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب غزہ اپنی تاریخ کے سب سے خونریز تصادم کا سامنا کر رہا تھا۔
7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد، جس میں حماس کے جنگجوؤں نے 1200 سے زائد اسرائیلی شہریوں کو قتل کیا، اسرائیل نے اس کارروائی کا جواب شدید فضائی اور زمینی حملوں سے دیا۔ 15 ماہ کے دوران ان حملوں کے نتیجے میں 46 ہزار فلسطینی جاں بحق ہوئے اور غزہ کے بیشتر علاقے تباہ ہو گئے۔
جنگ بندی کے معاہدے کے پہلے مرحلے میں اسرائیلی افواج غزہ کی سرحد سے 700 میٹر پیچھے ہٹیں گی۔ اس کے علاوہ، دو ہزار فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے 33 اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کیا جائے گا۔
مزید یہ کہ زخمی فلسطینیوں کو علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دی جائے گی اور رفح کا بارڈر پہلے مرحلے کے آغاز کے ایک ہفتے بعد کھولا جائے گا۔
یہ معاہدہ امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب کے قریب طے پایا ہے اور مشرق وسطیٰ میں امن کے سفر میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
جہاں بہت سے تجزیہ کار اس معاہدے کے مستقبل کے حوالے سے پر امید ہیں، وہیں آنے والے حالات کے بارے میں خدشات بھی موجود ہیں۔
خطے میں سیاسی اور سفارتی عمل کے پیش نظر، یہ معاہدہ غزہ کی تعمیر نو اور علاقائی سطح پر کشیدگی کم کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔