اسلامی دنیاتاریخ اسلامدنیامقدس مقامات اور روضے

13 رجب، یوم ولادت باسعادت امیر المومنین امام علی علیہ السلام

13 رجب سن 30 عام الفیل کو مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے اندر امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی۔

خانہ کعبہ میں ولادت، امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی وہ خصوصیت ہے جس میں کوئی آپ کا شریک نہیں، یعنی نہ آپ سے پہلے کوئی خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور نہ آپ کے بعد کوئی پیدا ہوا اور نہ ہوگا۔‌

جب حضرت المومنین علیہ السلام کی ولادت با سعادت کا وقت نزدیک آیا تو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا اپنے بیت الشرف سے نکلیں اور بیت اللہ کی جانب روانہ ہوئیں جب خانہ کے نزدیک پہنچیں تو اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور فرمایا۔ "رَبِّ اِنّی مُؤمَنِةٌ بِکَ و بما جاءَ مِن عِندِکَ مِن رُسُل و کُتُب و اَنّی مُصَدِّقَةٌ بِکَلامِ جدی اِبْراهیم الخَلیل و انَّه بنی البیت العتیق؛ فَبِحقِ الذَّی بنی هذا البَیْتِ و بِحَقَ الْمُولوُدِ الذَّی فی بَطْنی لما یسرت علی ولادتی”

(خدایا!میں تجھ پر ایمان رکھتی ہوں، تیرے بھیجے ہوئے رسولوں اور کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں، میں اپنے جد حضرت ابراہیم خلیل کے کلام کی تصدیق کرتی ہوں انھوں نے اس گھر کو تعمیر فرمایا، (خدایا) اس گھر کے معمار اور میرے بطن کے مولود کا واسطہ ولادت کے سلسلہ میں میری مشکل آسان فرما دے۔)

ابھی آپ کی دعا ختم نہ ہوئی تھی کہ وہاں موجود لوگوں نے دیکھاکہ خانہ کعبہ کی دیوار میں شگاف ہوا اور بی بی اندر داخل ہو گئیں اور آپ کے اندر جاتے ہی دیوار آپس میں مل گئی۔ لوگ خانہ کعبہ کی طرف بڑھے اور دروازہ کھولنا چاہا لیکن تالا کھل نہ سکا اور اس دن یعنی 13 رجب 30 عام الفیل کو مولود کعبہ کی ولادت ہوئی، ماں بیٹے تین دن تک اللہ کے گھر میں اس کے مہمان رہے جسکے سبب پورے مکہ میں یہ خبر پھیل گئی .

چوتھے دن( یعنی 16 رجب 30 عام الفیل کو) لوگ خانہ کعبہ کے نزدیک گئے تو دیکھا کہ خانہ کعبہ کی دیوار دوبار شگافتہ ہوئی بنت اسد اپنے اسد اللہ بیٹے کو لے کر باہر تشریف لائیں۔(الغدیر۔ جلد ۶، صفحہ ۲۱) اور لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا!خدا وند عالم نے مجھے گزشتہ خواتین پر فضیلت دی، آسیہ بنت مزاحم لوگوں کے خوف سے ایسی جگہ چھپ کر عبادت کرتی تھی جو عبادت کی جگہ نہ تھی، مریم بنت عمران نے سوکھے کھجور کے درخت سے تازہ کھجور توڑے۔

لیکن میں اللہ کے گھر میں داخل ہوئی، وہاں بہشتی پھل کھائے اور جب میں نکل رہی تھی تو زمین و آسمان کے درمیان ھاتف غیبی کی آواز سنی:’’ائے فاطمہ! اس مولود کا نام علی رکھو کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے کہ میں نے اس مولودکا نام اپنے نام سے ماخوذ کیا ہے۔ یہی مولود میرے گھر کو بتوں کی کثافت سے پاک کرے گا اور خانہ کعبہ کی چھت سے اذان دے گا جسکی آواز پورے مکہ میں پھیلے گی۔‘‘

امیر المومنین امام علی علیہ السلام کمسنی سے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ رہے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ کے زیر سایہ پروان چڑھے۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے اعلان اسلام کیا تو سب سے پہلے آپ نے ہی ان کی حمایت کا اعلان کیا۔

امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے دعوت ذوالعشیرہ میں جو وعدہ کیا تھا اس پر تا عمر قائم رہے، اسی وعدہ کے تحت مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے مصائب برداشت کئے، ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے حکم پر جہاد کیا، حضور کی شہادت کے بعد ان کی وصیت کے مطابق 25 برس صبر سے کام لیا۔‌

آخری چار سال چند ماہ حکومت کی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی سنت کو زندہ کیا اور ایسا نظام عدل قائم کیا کہ لوگوں کو حضور کی یاد تازہ ہو گئی۔

آخر اسی اطاعت و اتباع محض کے سبب محراب عبادت میں شہید ہوئے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button