اسلامی دنیاپاکستانخبریں

تعلیم نسواں کے سلسلہ میں اسلامی ممالک کی کانفرنس اختتام پذیر

پاکستان کی میزبانی میں اسلامی معاشرے میں "تعلیم نسواں” کے عنوان سے منعقد دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس اختتام پذیر

شرکاء نے اس کانفرنس کے آخری بیان میں اس بات پر زور دیا کہ وہ خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی، شخصیت کشی اور ان کی حیثیت کو پست کرنے کے خلاف ہیں۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

پاکستان کی میزبانی میں 44 ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے 150 نمائندوں کی شرکت کے ساتھ دو روزہ کانفرنس "اسلامی معاشرے میں تعلیم نسواں” کے عنوان سے لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت اور ضرورت پر زور دینے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے لڑکیوں کی تعلیم کے شعبہ میں پابندیوں اور محدودیت کو موجودہ دور کا سب سے اہم چیلنج قرار دیا۔

انہوں نے مزید کہا: جڑی ہوئی سماجی روایات لڑکیوں کی تعلیمی حدود کے مسئلہ کو بڑھاتی ہیں اور ایک سے زیادہ نسلوں کو متاثر کرتی ہیں۔

اس کانفرنس میں اسلامی عالمی یکجہتی تنظیم کے سکریٹری جنرل نے بھی اسلام میں لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا اور طالبان سے واضح طور پر کہا کہ وہ اپنی رائے اور فیصلے کو دین کی جانب منسوب نہ کریں۔

12 جنوری بروز اتوار جاری ہونے والی اس کانفرنس کے حتمی بیان میں کہا گیا کہ شرکاء نے ہر سطح پر تعلیم کے ذریعہ خواتین کو با اختیار بنانے پر زور دیتے ہوئے اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق کسی بھی خلاف ورزی اور خواتین کے کردار اور انحطاط کو نظر انداز کرنے کی مخالفت کا اظہار کیا۔

اگرچہ اس بیان میں کسی مخصوص ملک کا ذکر نہیں ہے لیکن اس کے متن میں زیادہ تر افغانستان کی خواتین کی صورتحال کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ جہاں طالبان کے سخت ضابطوں کی بنیاد پر لڑکیاں اور خواتین تعلیم سے محروم ہیں۔

انسانی حقوق کی کارکن اور نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے سخت اور تنقیدی لہجہ میں ایک مضمون میں طالبان پر صنفی امتیازی نظام پیدا کرنے کا الزام لگایا۔

انہوں نے اسلامی ممالک کے رہنماؤں سے کہا کہ وہ طالبان حکومت کو قبول نہ کریں اور خواتین کے حقوق کے حوالہ سے اس گروپ کے نقطہ نظر کے خلاف اپنی حقیقی قیادت کا مظاہرہ کریں۔

لیکن کیا یہ تنقید صرف طالبان پر ہے؟

پاکستان میں جو کبھی ملالہ کی شوٹنگ کا منظر تھا اب بھی انتہا پسندی کا سامنا ہے اور لڑکیوں کے اسکولوں کی سیکیورٹی نازک ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کا انعقاد لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے پاکستان کی حقیقی تشویش کی علامت سے زیادہ تھا یہ بین الاقوامی امیج کو بہتر بنانے اور ساتھ ہی طالبان پر سیاسی دباؤ ڈالنے کی کوشش تھی۔

لیکن جب تک پاکستانی لڑکیوں کو تعلیم اور تحفظ کے حق سے محروم رکھا جائے گا ایسی کانفرنسز حقیقی کاروائیوں کے بجائے سیاسی کھیل اور سفارتی شو ہوں گی۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button