اسلامی دنیاتاریخ اسلاممقدس مقامات اور روضے

10 رجب الاصب، یوم ولادت با سعادت جوادالائمہ امام محمد تقی علیہ السلام

امام محمد تقی علیہ السلام ہمارے نویں امام ہیں ۔ آپؑ کےوالد ماجد سلطان عرب و عجم ، عالم آل محمد ؑ، امام رؤوف حضرت ابوالحسن امام علی رضا علیہ السلام ہیں اور والدہ ماجدہ حضرت سبیکہ سلام اللہ علیہا ہیں۔

امام محمد تقی علیہ السلام کا نام ‘‘محمد’’، کنیت ‘‘ابوجعفر ثانی’’ اور القاب جواد، ابن الرضا ، تقی، زکی، قانع، رضی، مختار، متوکل، مرتضیٰ اور منتخب ہیں۔

آپؑ 10؍ رجب المرجب سن 195 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی بیٹی اور امام علی رضا علیہ السلام کی خواہر گرامی جناب حکیمہؑ سے روایت ہے کہ جب امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت کا وقت قریب آیا تو میں انکی والدہ ماجدہ جناب خیزران سلام اللہ علیہا کی خدمت میں پہنچی ۔ میرے امام اور بھائی امام علی رضا علیہ السلام نے مجھے حکم دیا کہ میں جناب خیزران سلام اللہ علیہا کے پاس ہی رہوں، لہذا خیزران سلام اللہ علیہا کے کمرے میں گئی ۔

رات کا وقت تھا لہذا امام علی رضا علیہ السلام نے ایک روشن چراغ وہاں رکھ دیا اور خود حجرے سے باہر نکل کر دروازہ بند کر دیا۔ جناب خیزران سلام اللہ علیہا کے سامنے ایک طشت تھا جیسے ہی ولادت کا وقت آن پہنچا اچانک چراغ گل ہو گیا اور کمرے میں تاریکی پھیل گئی جس سے میں پریشان ہو گئی ۔ تھوڑی ہی دیر بعد کیا دیکھا کہ امام محمد تقی علیہ السلام طشت میں ہیں اور آپ ؑ کے نورانی وجود سے حجرہ منور ہے ۔

میں نے فوراً ہی انکو اپنی آغوش میں لے لیا اور انکی والدہ ماجدہ جناب خیزران سلام اللہ علیہا سے کہا کہ اللہ نے آپ کو اس مولود کے نور کے سبب چراغ سے بے نیاز کر دیا ۔ اسی وقت امام علی رضا علیہ السلام حجرے میں داخل ہوئے اور نومولود کو مجھ سے لے کر گہوارے میں لٹا دیا اور فرمایا: حکیمہ! گہوارے کے قریب ہی رہنا۔ جناب حکیمہؑ فرماتی ہیں کہ ولادت کے تیسرے دن امام محمد تقی علیہ السلام نے آسمان کی جانب چہرہ کیا اور آنکھیں کھولیں اور زبان پر کلمہ شہادتین جاری کیا۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے بہت تعجب ہوا، امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں گئی اور ان کو پورے ماجرے کی اطلاع دی تو امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: آئندہ اس سے بھی زیادہ تعجب خیز اور حیرت انگیز واقعات ان سے رونما ہوں گے۔

امام محمد تقی علیہ السلام کی عمر مبارک صرف 8 برس تھی کہ مامون عباسی نے آپؑ کے والد ماجد امام علی رضا علیہ السلام کو زہر دغا سے شہید کر دیا اور اس کمسنی میں امامت کی ذمہ داریاں آپ ؑ پر آئیں ۔ چوں کہ امام محمد تقی علیہ السلام سے قبل کوئی امام اتنی کمسنی میں منصب امامت پر فائز نہیں ہوا تھا اس لئے عوام تو عوام بعض خواص کے لئے بھی یہ مسئلہ پیچیدہ ہو گیا تھا۔

جیسا کہ روایت میں ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد بغداد میں ‘‘ریان بن صلت’’، ‘‘صفوان بن یحییٰ’’، ‘‘محمدبن حکیم’’، ‘‘عبدالرحمٰن بن حجاج’’ اور ‘‘یونس بن عبدالرحمٰن ’’ بعض دوسرے شیعہ بزرگان کے ساتھ عبد الرحمٰن بن حجاج کے گھر میں جمع ہوئے اور امام علی رضا علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت پر گریہ و زاری اور عزاداری میں مصروف ہوگئے ۔

تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ ‘‘یونس بن عبدالرحمٰن ’’ نے لوگوں سے کہا کہ یہ گریہ و زاری ختم کرو ، پہلے اس اہم مسئلہ کے لئے فکر کرو کہ اب امام کون ہے؟ کیا ہم اس کمسن بچے کو امام مان لیں یا ان کے بڑے ہونے کا انتظار کریں، پھر اس مدت میں کس سے ہدایت حاصل کریں ۔

یہ سننا تھا کہ ‘‘ریان بن صلت’’ اٹھے اور ‘‘یونس’’ کے گلے کو پکڑ لیا اور انکے سر و صورت پر مارتے ہوئے بولے۔ ‘‘تم ہمارے سامنے ابھی تک ایمان کا اظہار کرتے رہے جب کہ شک اور شرک تمہارے اندر چھپا ہوا تھا۔ کیوں کہ اگر کسی کی امامت اللہ کی جانب سے ہو تو اگرچہ وہ ایک دن کا بچہ ہی کیوں نہ وہ سو سال کے بزرگ جیسا ہے لیکن اگر اللہ کی جانب سے امامت نہیں ملی ہے تو سو سال کا ہی کیوں نہ ہو وہ امام نہیں ہو سکتا۔’’ وہاں موجود دیگر لوگوں نے بھی یونس کی سرزنش کی۔

امام محمد تقی علیہ السلام ماہ ذی القعدہ کے آخری دن سن 220 ہجری کو شہید ہوئے۔ شہادت کے بعد آپ ؑ کو آپؑ کے دادا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کےپہلو میں دفن کیا گیا۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button