ایران میں سزائے موت میں تشویش ناک اضافہ، 2024 میں 900 سے زائد افراد کو پھانسی
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی نئی رپورٹ کے مطابق ایران میں 2024 میں کم از کم 901 افراد کو پھانسی دی گئی ہے۔
یہ اعداد و شمار 2015 کے بعد سے اس ملک میں پھانسیوں کی سب سے بڑی تعداد ہیں۔
اقوام متحدہ نے اس نمایاں اضافہ کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے ایرانی حکومت سے کہا کہ وہ پھانسیوں کے بڑھتے ہوئے عمل کو روکے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
اقوام متحدہ نے اپنی نئی رپورٹ میں اعلان کیا کہ 2024 میں ایران میں 901 افراد کو سزائے موت دی گئی جن میں سے 31 خواتین تھیں۔
یہ اعداد و شمار 2015 کے بعد پھانسیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے اور اس ملک میں تشویش ناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی رپورٹ کے مطابق پھانسی کی سزاؤں میں سے بہت سی سزائیں منشیات سے متعلق جرائم کی وجہ سے دی گئیں، تاہم سیاسی مخالفین اور خواتین کی آزادی کی تحریک کے احتجاج میں حصہ لینے والے افراد بھی سزائے موت پانے والوں میں شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر تورک نے ایک بیان میں کہا کہ ایران میں پھانسیوں کی تعداد میں اضافہ انتہائی تشویش ناک ہے اور ایرانی حکومت سے کہا کہ وہ ہر قسم کی سزائے موت کو جلد از جلد روکے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایران سزائے موت پر عمل درآمد کو ختم کرے۔
سزائے موت پانے والوں میں خواتین کی ایک قابل ذکر تعداد بھی شامل تھی جنہیں زیادہ تر قتل اور گھریلو تشدد اور جبری شادیوں سے متعلق جرائم میں سزائے موت دی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان لیز ٹرسل نے اس بات پر زور دیا کہ یہ تعداد کم از کم 15 برسوں میں خواتین کو دی جانے والی پھانسیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ نے بارہا فرمایا: ایسی صورتحال میں سزا کے طور پر پھانسی دینا کہ جس سے غیر مسلم بھی اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہوتے ہیں نہ صرف یہ کہ سادگی سے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ اسلامی تعلیمات سے بھی متصادم ہے جو رحم، معافی اور اصلاح پر زور دیتی ہیں۔
یہ رویے ایران میں موجودہ انتظامی پالیسیوں سے متصادم ہیں اور دینی اصولوں اور انصاف کے بارے میں شکوک و شبہات کی شدت کا باعث بنتے ہیں۔
دینی محققین اور آزاد فقہاء کا خیال ہے کہ بہت سے معاملات میں تشدد اور ناانصافی کے تسلسل کو روکنے کے لئے اصلاحی اور انسانی حقوق تلاش کئے جانے چاہیے۔
نیز ایران کی خراب اقتصادی اور سماجی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کئی بین الاقوامی ادارے انسانی حقوق پر زیادہ توجہ دینے اور اس ملک کے عدالتی نظام میں سنجیدہ اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اس سلسلہ کو ختم کرنے کے لئے نہ صرف ملزمان کے حقوق بلکہ انسانی اور اسلامی اصولوں کے تحفظ کے لئے پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں اور انصاف کے نفاذ کی ضرورت ہے۔