اسلامی دنیاافغانستانخبریں

افغانستان میں داعش خراسان کو صومالیہ داعش سے مالی امداد ملتی ہے

پیچیدہ اور غیر مرئی نیٹ ورک کے ذریعہ افغانستان میں داعش خراسان برانچ کو صومالیہ داعش برانچ سے مدد ملتی ہے۔

ترسیلات زر کے روایتی نظام اور غیر قانونی تجارت کا استعمال اس مالیاتی سسٹم کو ریگولیٹری اداروں کے نظروں سے پوشیدہ رکھتا ہے اور بین الاقوامی نگرانی کی کمزوری پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔

دنیا کے تاریک گوشوں میں دہشت گرد نیٹورکس جیسے افغانستان میں داعش خراسان برانچ اپنے مالی وسائل کو دور دراز مقامات سے محفوظ کرنے کے لئے پیچیدہ اور روایتی طریقے استعمال کرتی ہے۔

حالیہ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ صومالیہ میں انتہا پسند سنی گروپ داعش روایتی مشرقی افریقی ترسیلات کے نظام کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں اپنے ہم منصبوں کو خاصی رقم منتقل کرتا ہے۔

حوالہ سسٹم اپنے غیر رسمی اور اعتماد پر مبنی ڈھانچے کے ساتھ سخت نگرانی کے بغیر رقم کی منتقلی کے قابل بناتا ہے جس سے بین الاقوامی اداروں کے لئے ان مالیاتی سسٹم کا سراغ لگانا تقریبا ناممکن ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ شدت پسند سنی گروپ داعش نے افریقہ میں کوئلے اور سونے سمیت قدرتی وسائل کی غیر قانونی تجارت سے فائدہ اٹھا کر فنڈز جمع کئے ہیں اور ان فنڈز کو مقامی اور بین الاقوامی مالیاتی نیٹورک کے ذریعہ اپنے مختلف شاخوں میں منتقل کیا ہے۔

انتہا پسند سنی گروپ داعش کی خراسان برانچ جو 2024 میں مشرقی افغانستان میں غیر منحرف افغان اور پاکستانی طالبان کمانڈروں اور ارکان سے تشکیل دی گئی تھی، نے گذشتہ دہائی کے دوران افغانستان اور پاکستان میں مہلک حملے کئے ہیں۔

ایک دہائی سے افغانستان کے شیعوں اور ہزارہ کے خلاف شدت پسند سنی گروہ داعش کے حملے اس ملک کی تاریخ میں ایک سیاہ اور خونی باب رقم کر چکے ہیں۔

مذہبی اور قومی تفریق کو مزید گہرا کرنے کے مقصد سے اس دہشت گرد گروہ نے ہزارہ کے علاقوں بشمول کابل کے دشت برچی، مزار شریف اور قندھار میں مہلک حملے کئے ہیں۔

ان حملوں میں ہم تعلیمی مراکز، مساجد، ورزشگاہوں اور ہسپتالوں میں ہونے والے بم دھماکوں کا ذکر کر سکتے ہیں جن کے نتیجہ میں خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں شیعہ اور ہزارہ افراد کی شہادت ہوئی۔

مجموعی طور پر ان حملوں نے سینکڑوں افراد کو ہلاک اور زخمی کیا اور ہزارہ برادری کو غمزدہ کیا۔

تاہم؛ انسانی حقوق کی تنظیموں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے مذہبی اقلیتوں بالخصوص ہزارہ شیعوں کے خلاف انتہا پسند سنی گروپ داعش کے حملوں پر بارہا تشویش کا اظہار کیا ہے۔

یہ تنظیمیں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ طالبان حکام نے ان کمیونٹیز کو خودکش بم دھماکوں اور دوسرے منظم حملوں سے بچانے کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے ہیں۔

دنیا کی بے توجہی اور یکے بعد دیگرے افغان حکومتوں کی سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکامی کے سبب شیعہ اور ہزارہ انتہا پسندی کا خاموش شکار بن چکے ہیں۔

یہ زخم ابھی تازہ ہیں اور فریادیں بلند ہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button