شام میں غیر ملکی جنگجوؤں کا فوج میں انضمام اور نئے سیاسی حالات
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور نئی شامی حکومت کے قیام کے بعد، غیر ملکی جنگجوؤں کو شامی فوج اور سرکاری عہدوں میں شامل کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
دسمبر 2024 میں بشار الاسد کی حکومت کے زوال کے بعد، احمد شرع کی قیادت میں نئی حکومت شام میں سیاسی اور فوجی ڈھانچے کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس عمل کا ایک اہم حصہ غیر ملکی جنگجوؤں کو شامی فوج میں شامل کرنا ہے۔ حکومتی اعلان کے مطابق، فوج کے نئے ڈھانچے میں چین، ترکی، اردن اور البانیہ سمیت مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے چھ غیر ملکی جنگجو شامل کیے گئے ہیں۔
یہ اقدام مختلف گروہوں کو ایک پیشہ ور اور متحد فوج میں تبدیل کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔
دوسری جانب، حکومت نے دیگر اہم تقرریاں بھی کی ہیں۔ ان میں میساء صابرین کو شام کے مرکزی بینک کی پہلی خاتون سربراہ کے طور پر تعینات کرنا شامل ہے، جو ملکی تاریخ میں ایک اہم قدم ہے۔
احمد شرع نے واضح کیا کہ شام کو گروہوں اور مسلح ملیشیاؤں کے زیرِانتظام نہیں رہنا چاہیے بلکہ ایک قومی اور مستحکم حکومت کی جانب بڑھنا ہوگا۔
ملک کے موجودہ تنوع، خاص طور پر مذہبی اور نسلی گروہوں کے درمیان، اس عمل کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔ اس دوران، ہیئت تحریر الشام جیسے گروہ بھی اپنے سیاسی کردار کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جو شام کے مستقبل کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے۔