اروناچل پردیش کے وزیر اعلیٰ پیما کھانڈو نے اعلان کیا ہے کہ ریاست جلد ہی 1978 کے "آزادی مذہب قانون” کو فعال کرے گی، جو کئی دہائیوں سے غیر فعال رہا ہے۔ یہ قانون مذہبی تبدیلیوں کے معاملات کو باقاعدہ بنانے کے لیے بنایا گیا تھا اور زبردستی تبدیلی مذہب کو روکنے کا مقصد رکھتا ہے۔
وزیر اعلیٰ کھانڈو نے واضح کیا کہ قانون کا نفاذ کسی مخصوص مذہب کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں بلکہ تمام مذاہب کو زبردستی تبدیلی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہوگا۔
یہ اعلان گواہاٹی ہائی کورٹ کی حالیہ ہدایت کے بعد کیا گیا ہے، جس نے ریاستی حکومت کو چھ ماہ کے اندر قانون کے نفاذ کے قواعد و ضوابط کو حتمی شکل دینے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے یہ فیصلہ ایک عوامی دلچسپی کی درخواست پر دیا، جس میں وکیل تمبو تامن نے دلیل دی تھی کہ ریاست نے 45 سالوں سے قانون کے قواعد بنانے میں غفلت برتی ہے۔
اس اعلان پر اروناچل پردیش کی مختلف کمیونٹیز میں مختلف ردعمل سامنے آئے ہیں۔ بعض گروپس، جیسے کہ "انڈیجینس فیتھ اینڈ کلچرل سوسائٹی آف اروناچل پردیش”، اس اقدام کو مقامی مذاہب کے تحفظ کے لیے اہم سمجھتے ہیں، جب کہ مسیحی برادریوں نے ممکنہ امتیازی سلوک اور مذہبی آزادی پر پابندیوں پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔
یہ قانون 25 اکتوبر 1978 کو صدارتی منظوری کے بعد نافذ ہوا تھا، لیکن مسلسل حکومتوں کی غفلت کے باعث غیر مؤثر رہا۔ اس کا مقصد مذہبی آزادی کا تحفظ تھا، لیکن اسے ممکنہ پابندیوں کے باعث تنقید کا بھی سامنا رہا۔
وزیر اعلیٰ کا یہ اقدام ثقافتی شناخت کے تحفظ اور مذہبی آزادی کے درمیان نازک توازن کی عکاسی کرتا ہے۔