پیر کو ۲۸؍ سے زائد روہنگیا تنظیموں نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے اراکان آرمی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ریاست راکھین میں موجود تمام نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرے اور انہیں تحفظ فراہم کرے۔ اراکان آرمی نے حال ہی میں شمالی راکھین کے مونگ ڈاؤ اور بوتھیداونگ ٹاؤن شپس پر قبضہ کیا ہے، جو بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب واقع ہیں۔ بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں تقریباً ۱۲؍ لاکھ روہنگیا مہاجرین موجود ہیں، جو اگست ۲۰۱۷ء میں میانمار کی فوج کے کریک ڈاؤن کے بعد وہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔
بیان میں کہا گیا کہ میانمار میں اب بھی تقریباً ۵؍ لاکھ روہنگیا افراد موجود ہیں، جو اراکان آرمی کے زیر کنٹرول علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ تنظیموں نے زور دیا کہ یہ لمحہ راکھین ریاست کے مستقبل کو انسانی حقوق، انصاف اور سب کے لیے مساوی حقوق کی بنیاد پر تبدیل کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے، جہاں امن اور بقائے باہمی حکمرانی کی بنیاد ہوں۔
روہنگیا تنظیموں نے اراکان آرمی پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے، جن میں بڑے پیمانے پر آتش زنی، جبری نقل مکانی، لوٹ مار، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگی، جبری مشقت، جنسی تشدد اور بھتہ خوری شامل ہیں۔ بیان میں اراکان آرمی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ روہنگیا کو دشمن کے بجائے ریاست کے خوشحال اور پرامن مستقبل کے شراکت دار کے طور پر دیکھے۔
تنظیموں کے مطابق، اراکان آرمی کو چاہیے کہ وہ تمام اقوام اور برادریوں کے لیے یکساں مواقع فراہم کرے اور روہنگیا کے ساتھ مل کر امن و ترقی کے لیے کام کرے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ریاست میں قحط کے خطرے کی وجہ سے تقریباً ۲۰؍ لاکھ افراد بھوک سے مر سکتے ہیں، اور اس انسانی بحران کو روکنے کے لیے تمام طبقوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ فوج ہماری مشترکہ دشمن ہے، جس کا مقصد راکھین اور روہنگیا برادری کو تباہ کرنا اور اراکان ریاست کے وسائل پر قبضہ کرنا رہا ہے۔ تنظیموں نے اراکان آرمی سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنائے اور ایک ایسا ماحول تشکیل دے جہاں کوئی بھی فرد بھوک، پناہ، صحت کی سہولیات اور روزگار سے محروم نہ ہو۔
روہنگیا تنظیموں نے اراکان آرمی کو دعوت دی کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر ایک ایسا نظام قائم کرے جو تمام برادریوں کو یکساں تحفظ اور حقوق فراہم کرے اور ریاست کے امن و خوشحالی کے لیے کام کرے۔