جموں کشمیر ہائی کورٹ نے وراثت کے ۴۳؍ سال پرانے تنازع کو ختم کرتے ہوئے بدھ کو تاریخی فیصلہ سنایا اور کہا کہ اسلام میں وراثت کی تقسیم کا بہت واضح قانون اور اصول موجود ہے۔ عدالت نےمسلم پرسنل لاء سے بے خبر ی پر ذیلی عدالتوں کی سرزنش بھی کی۔
’’کشمیر لائف‘‘ اور’’گریٹر کشمیر‘‘ کی رپورٹ کے مطابق جسٹس ونود چٹرجی کول نے مختی نامی خاتون کو والد کی وراثت میں حق دینے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’’مسلم خاتون کو اس کے والد کے ترکہ میں حصہ سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘ انہوں نے نشاندہی کی کہ اسلامی قوانین میں وراثت میں بیٹیوں کو بیٹوں پر فوقیت دی گئی ہے۔ جسٹس کول نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء کی رُو سے مختی اپنے والد کی وراثت میں حصے کی حقدار ہیں اور اس فیصلہ پر عمل درآمد تمام ذیلی عدالتوں اور ریوینیو کورٹس پر لازم ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مختی اپنے بھائی سے وراثت کی قانونی لڑائی لڑتے لڑتے اس دنیا سے رخصت ہو گئیں اوراب مقدمہ ان کی ۳؍ بیٹیاں اور ۵؍ بیٹے لڑ رہے ہیں۔ کورٹ نے اس بات پر برہمی کااظہار کیا کہ ریوینیو افسران مسلم پرسنل لاء سے لاعلم ہیں اور انہوں نے ایسے احکامات جاری کئے جن سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے جیسے مختی سری نگر کے رہنے والے منورغنی مرحوم کی بیٹی ہی نہیں ہیں۔
کورٹ نے سورہ نساء کی آیت نمبر ۱۱؍ کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام میں وراثت سے متعلق اصولوں کو واضح کیا اور بتایاکہ مذکورہ آیت مرحوم کے ترکہ میں بچوں، شریک حیات اور خاندان کے دیگر افراد کا حصے طے کرتی ہے۔ جج نے نشاندہی کی کہ اس آیت کی رو سے ترکہ میں بیٹے کیلئے بیٹی کا دگنا حصہ ہے۔ عدالت نے سمجھایا کہ لڑکوں کو لڑکیوں سے دگنا ملتا ہے کیونکہ مردوں پر بیوی، بچوں، ماں باپ وغیرہ کی کفالت کا ذمہ ہوتا ہے۔
کورٹ نے وراثت کی تقسیم کو قرآن کے ذریعہ عائد کی گئی ذمہ داری قراردیا اور کہا کہ ’’یہ قرآن کے مطابق فرض ہے کہ بہنوں کو ان کا حق دیا جائے۔ سورہ نسا ء کو پڑھیں تو معلوم ہوجاتا ہےکہ وراثت میں بیٹے پر بیٹی کو ترجیح دی گئی ہے۔ ‘‘
واضح رہے کہ یہ ۱۹۸۱ء کا کیس ہے جب مختی نے وراثت میں حصہ نہ ملنے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایاتھا۔ ۱۹۹۶ء میں ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ نے مختی کو جائیداد میں ایک تہائی حصہ دینے کا حکم دیاتھا مگر اس کا اطلاق نہ ہونے پر وہ پھر عدالت سے رجوع ہوئیں اور مقدمہ لڑتے لڑتے انتقال کرگئیں۔ عدالت نے ۱۹۹۶ء کے فیصلے کو ۳؍ ماہ میں نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔