تاجکستان میں اقتصادی صورتحال اور دینی پابندیاں، نوجوانوں کو داعش میں شامل ہونے کا سبب
امام علی رحمان کی قیادت میں تاجکستان میں خراب اقتصادی صورتحال اور دینی پابندیوں کی وجہ سے ملک کے بہت سے نوجوان داعش جیسے شدت پسند سنی گروپوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق معاشی مسائل اور مذہبی شدت پسندی نے داعش کی جانب سے بھرتی کے عمل کو بہت بڑھاوا دیا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
تاجکستان میں افرا تفری کی معاشی صورتحال امام علی رحمان کی حکومت کی جابرانہ مذہبی پالیسیوں سے ملک کے مسلمان نوجوانوں کے داعش جیسے شدت پسند سنی گروپوں میں شامل ہونے کا رجحان پیدا ہوا ہے۔
اطلاعات کے مطابق تاجکستان میں وسیع پیمانے پر معاشی مسائل نے بہت سے شہریوں خاص طور پر نوجوانوں کو آمدنی اور تحفظ کے حصول کے لئے داعش جیسے شدت پسند سنی گروہوں کی صفوں میں شامل ہونے کا سبب ہوا ہے۔
طالبان میڈیا نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ شدت پسند سنی گروپ داعش کے بہت سے ارکان کا تعلق تاجکستان سے ہے اور داعش کی خراسان شاخ کے نصف ارکان بھی تاجک ہیں۔
اس رجحان کی ایک اہم وجہ تاجکستان میں سخت دینی پابندیاں ہیں۔
اس ملک میں امام علی رحمان کی حکومت نے مذہبی آزادی پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور شہریوں کے لئے 18 سال کی عمر سے پہلے مذہب کے انتخاب پر پابندی لگا دی ہے۔
ان دین مخالف اور جابرانہ رویے بہت سے نوجوانوں کو اپنی مذہبی شناخت کی جستجو میں داعش جیسے شدت پسند سنی گروہوں کی طرف مائل ہونے کا سبب بنا ہے۔
سن 2014 سے 2019 تک 2000 تاجک شدت پسند سنی گروپ داعش میں شامل ہوئے اور خطہ کے مختلف ممالک پر گروپ کے حملوں میں حصہ لیا۔
یہ حالات ظاہر کرتے ہیں کہ تاجکستان میں اقتصادی اور دینی ناکامیوں کو انتہا پسند سنی گروہوں کی بھرتی کے ایک عنصر کے طور پر علاقائی اور عالمی سلامتی کے لئے ایک سنگین خطرہ سمجھا جاتا ہے۔