تاریخ اسلامخبریںہندوستان

18 جمادی الثانی، یوم شہادت شہید ثالث رضوان اللہ تعالی علیہ

قاضی سید نور اللہ شوستری دسویں اور گیارہویں صدی ہجری کے عظیم شیعہ عالم، فقیہ، اصولی، متکلم، محدث اور شاعر جناب سید نور اللہ شوستری مرعشی المعروف بہ شہید ثالث رضوان اللہ تعالی علیہ سن 956 ہجری کو ایران کے صوبہ خوزستان کے شہر شوستر کے ایک شیعہ سید دینی اور علمی خانوادے میں پیدا ہوئے، آپ کے والد جناب سید شریف الدین اپنے زمانے کے بزرگ علماء میں سے تھے جن کے علوم عقلیہ اور نقلیہ میں آثار تھے۔

آپ نے شوشتر میں تحصیل علم کیا۔ عقلی اور نقلی علوم اپنے والد کے پاس پڑھے اور طب حکیم مولانا عماد الدین کے پاس پڑھا۔ نیز میر صفی الدین محمد اور میر جلال الدین محمد صدر بھی ان کے اساتذہ میں ہیں۔ 23 سال کی عمر میں 979 ه‍ کو اپنے چھوٹے بھائی سید وجیہ الدین محسن کے ساتھ حصول علم کیلئے مشہد آئے۔

مشہد میں قاضی نور اللہ نے مولا عبدالواحد شوشتری کے درس میں شرکت کی اور فقہ، اصول، کلام، حدیث اور تفسیر جیسے علوم اسی استاد سے حاصل کئے۔ مولا محمد ادیب قاری تستری سے ادبیات عرب و تجوید قرآن کریم حاصل کئے۔ نیز عبد الرشید شوشتری (مؤلف کتاب مجالس الامامیہ (اعتقادات) اور مولا عبدالوحید تستری جیسے علما سے اجازه روایت لیا۔

بعض وجوہات کی بنیاد پر 992 ہجری یا 993 ہجری میں آپ مشہد مقدس سے بر صغیرہ تشریف لائے۔ کچھ عرصہ بعد سابق قاضی کی پیری اور بیماری کے سبب اکبر بادشاہ نے آپ کو قاضی بنایا۔‌آپ نے قاضی القضات کے منصب پر بیٹھنے سے پہلے اکبر بادشاہ سے کہا: ہو سکتا ہے کہ وہ دینی مسائل کی اصلی مصادر کے مطابق تحقیق کرے، ان کے مطابق فقہی حکم بیان کرے اور اس تحقیق و جستجو کے نتیجے میں مجبور نہیں ہوگا کہ وہ کسی ایک مسلک کی پیروی کرے اور ایک ہی مذہب کے مطابق فتوے صادر کرے بلکہ وہ اپنے اجتہاد کو بروئے کار لا کر فتوا صادر کرے گا لیکن اس فتوے کے بیان میں رائج سنتی فقہ سے باہر نہیں جائے گا اور اہل سنت کی چار فقہوں (شافعی، حنبلی، مالکی یا حنفی) میں سے کسی ایک فقہ کے مطابق فتوا صادر کرے گا۔اکبر بادشاه نے قاضی شیعہ ہونے کے باوجود ان میں موجود صلاحیتوں اور استعداد کی بنا پر قاضی کی اس شرط کو قبول کیا اور قاضی کے عہدے پر منصوب کیا۔

قاضی نوراللہ اہل سنت کی تمام فقہوں اور ان کے باہمی اختلافات کی بدولت عوام کے زیادہ نفع میں اور شیعوں کے نزدیک تر فتوا صادر کر سکتے تھے۔ اسی وجہ سے عبد القادر بدایونی اپنے سخت مذہبی تعصب کی وجہ سے اکبر بادشاہ کی سیاسی پالیسیوں سے مخالفت کے باوجود قاضی نور اللہ کی عدالت، شرافت و علم کی تعریف کرتا تھا۔‌

آپ کی تالیفات کی طویل فہرست ہے جن میں "احقاق الحق” اور "مجالس المومنین” زیادہ مشہور ہے۔‌آپ مظلومانہ شہادت کے سلسلہ میں محدث قمی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا: قاضی نوراللہ قضاوت اور مخفیانہ تالیف میں مشغول تھے کہ اکبر بادشاہ کے مرنے کے بعد جہانگیر تخت نشین ہوا۔

درباری علما اور مقربین نے نور اللہ کے خلاف بادشاہ کے کان بھرنے شروع کر دیئے کہ قاضی شیعہ ہے، اپنے آپ کو چار فقہوں کا پابند نہیں سمجھتا ہے اور اپنے فتوے مذہب امامیہ کے مطابق دیتا ہے۔ جہانگیر شاه نے ان کے بیانات کو ان کے شیعہ ہونے کیلئے کافی نہیں سمجھا اور کہا: اس نے قضاوت کے عہدے کو اپنے اجتہاد کی شرط کے ساتھ قبول کیا تھا۔

ان لوگوں نے اس سے مایوس ہو کر قاضی کیلئے ایک اور حربہ استعمال کیا۔ ایک شخص کو شیعہ ظاہر کرکے قاضی کے پاس شاگردی کیلئے بھیجا۔ اس شخص نے کچھ مدت کی آمد و رفت سے قاضی کا اعتماد حاصل کیا اور وہ قاضی کی مجالس المؤمنین سمیت دیگر کتب سے آگاہ ہوا اور اس نے مجالس المؤمنین ان سے لی اور درباری علما اور مقربین کیلئے اس سے نسخہ برداری کی۔

انہوں نے اس کتاب کو ان کے تشیع کی دلیل کے طور پر بادشاہ کے سامنے پیش کیا اور بادشاہ سے کہا: انہوں نے اس کتاب میں ایسا ایسا لکھا ہے لہذا اس پر حد جاری ہونی چاہئے۔ جہانگیر نے پوچھا اس کی حد کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اس کی سزا کوڑے ہے۔

بادشاہ نے یہ کام ان کے سپرد کیا اور انہوں نے بلا فاصلہ ان پر حد جاری کرتے ہوئے کوڑے مارے۔ کہتے ہیں: خاردار لکڑی کے تختے پر 70 سال کی عمر میں اس حد تک کوڑے مارے گئے کہ ان کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔

آپ کی شہادت 18 جمادی الثانی سن 1019 ہوئی۔ مزار مقدس ہندوستان کے شہر آگرہ میں عاشقان آل محمد علیہم السلام کی زیارت گاہ ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button