طالبان کی افغانستان میں غیر پشتون نسلی گروہوں کی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش
طالبان گروپ کے سربراہ نے حال ہی میں ایک منصوبے کی منظوری دی ہے جس کا مقصد ان رسوم و رواج کی نشاندہی کرنا اور ان کا خاتمہ کرنا ہے جو اس گروہ کی نظر میں ناپسند سمجھی جاتی ہیں۔
افغانستان کے ماہرین اور سماجی کارکنوں نے خبردار کیا کہ طالبان برے رسموں کی نشاندہی کے بہانے غیر پشتون قبائل کی دیرینہ شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
منگل 17 دسمبر کو میڈیا نے رپورٹ کیا کہ طالبان کے رہنما نے پورے افغانستان میں بری رسوم و رواج کی نشاندہی کرنے کا حکم جاری کیا ہے جو ان کے شرعی قانون کے مطابق جائز نہیں ہیں۔
طالبان رہنما کی جانب سے لوگوں کے رسوم و رواج کی شناخت کے لئے جو وفد متعارف کرایا گیا ہے اس میں افغانستان کے شیعہ یا دیگر نسلی گروہوں کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہے۔
اس گروہ کے سربراہ میں کہا کہ اس وفد کو ان رسوم کی روک تھام کے لئے کوئی طریقہ تیار کر کے اس کے پاس بھیجنا چاہیے۔
طالبان نے یہ واضح نہیں کیا کہ برے رسم و رواج کا مقصد کیا ہے اور یہ افغان عوام کی عوامی زندگی کے کن حصوں کا احاطہ کرتا ہے۔ تاہم، افغان ماہرین اور سماجی کارکن اس کاروائی سے پریشان ہیں اور خبردار کرتے ہیں کہ طالبان بری رسومات کی نشاندہی کے بہانے غیر پشتون لوگوں کی مذہبی، قومی اور لسانی شناخت ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جب سے طالبان نے افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا ہے انہوں نے اجتماعی سرگرمیوں، ثقافتی اور مذہبی تقریبات بشمول یوم عاشورا کی عزاداری کے انعقاد پر وسیع پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
جشن نوروز، جو کہ افغان عوام کے قدیم ترین اور اہم ترین قومی تقریبات میں سے ایک ہے، کو غیر اسلامی اور ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ تفریحی مراکز، پارکوں اور مراکز پر جانے والے خاندان بھی ان دیگر معاملات میں شامل ہیں جن پر طالبان نے یا تو پابندیاں عائد کر دی ہیں یا کئی جگہوں پر مکمل طور پر ممنوع قرار دے دیا ہے۔
اس کے علاوہ پچھلے تین برسوں کے دوران، فارس مخالف اور طالبان کی جانب سے اسے پسماندہ کرنے کی کوششوں کی متعدد رپورٹس شائع ہوئی ہیں۔
افغان سماجی کارکن کہتے ہیں پالیسیوں کے ذریعہ طالبان درحقیقت افغانستان کو یک ثقافت کی جانب لے جانے اور اس ملک کی متنوع نسلی اور مذہبی شناختوں کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کے بقول طالبان کی پالیسیاں ایک ایسا رویہ ظاہر کرتی ہیں جو نہ صرف رسم و رواج کا احترام نہیں کرتی بلکہ ان کی تردید اور خاتمہ کی کوشش بھی کرتی ہے۔