13 جمادی الآخر، یوم شہادت حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا
حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی زوجہ، علمدار کربلا حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام اور شہدائے کربلا حضرت عبداللہ، حضرت جعفر اور حضرت عثمان علیہم السلام کی والدہ ماجدہ ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے بہادر، شجاع اور وفادار بیٹے کی تمنا کی خاطر اپنے بھائی نساب عرب جناب عقیل سے رشتے کے لئے مشورہ مانگا اور ان کے مشورے کے مطابق قبیلہ بنی کلاب جو اپنی شجاعت و بہادری اور اخلاقی فضائل کے سبب مشہور تھا اس کی نامور فرد جناب حزام کی دختر نیک اختر جناب فاطمہ یعنی حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا سے شادی کی۔
جب حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا بیت ولایت پر تشریف لائیں تو فرمایا میں اس وقت تک اندر قدم نھیں رکھوں گی جب تک خاتون جنت کی بڑی بیٹی مجھے داخلےکی اجازت نہ دے دیں۔ اور جب گھر میں داخل ہوئیں تو اس وقت سبطین رسولؐ حضرت امام حسن و امام حسین علیھماالسلام مریض تھے اگر چہ آپ ایک نئی نویلی دلہن تھیں لیکن اسکے باوجود آپ نے سبطین کریمین علیھماالسلام کی خدمت و تیمارداری کو مقدم رکھا اور امیر المومنین علیہ السلام سے درخواست کی کہ "آپ مجھے میرے نام یعنی فاطمہ سے مخاطب نہ فرمائیں بلکہ میری کنیت ام البنین سے مجھے مخاطب فرمائیں کیوں کہ میں نہیں چاہتی کہ اولاد فاطمہ سلام اللہ علیھا اپنی والدہ ماجدہ کا نام سن کر ان کی مظلومیت و مصیبت کو یاد کر کے غمزدہ ہوں۔
اللہ نے حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کو چار بیٹے عطا کئے جو سب کربلا میں نصرت امام حسین علیہ السلام میں شہید ہوئے۔
حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا اگرچہ میدان کربلا میں موجود نہ تھی لیکن آپ نے اپنے چاروں بیٹے کربلا میں قربان کئے۔ اور انہی بیٹوں کے سبب آپ کو ام البنین (بیٹوں کی ماں) کہا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب یہ چاروں شہید ہو گئے تو غمزدہ ماں نے مرثیہ پڑھا "اب کوئی مجھے ام البنین نہ کہے۔” یعنی ام البنین سلام اللہ علیہا نے میدان کربلا میں نہ فقط اپنی اولاد قربان کی بلکہ اپنی کنیت و شہرت "ام البنین” بھی قربان کر دیا۔
شہید ثانی ؒو مرحوم مقرمؒ نے فرمایا : ’’جناب ام البنین کو اہلبیتؑ سے شدید محبت تھی اور اپنی زندگی کو اہلبیتؑ کے لئے وقف کردیا ۔ اہلبیتؑ بھی انکا احترام فرماتے خصوصا روز عید انکے یہاں تشریف لے جاتے تھے۔ ‘‘
مرحوم باقر شریف قرشیؒ نے فرمایا: ’’حضرت ام البنینؑ جیسی خاتون تاریخ میں کہیں نہیں ملی کہ جو سوتن کے بچوں سےایسے خلوص و محبت سے پیش آئے اور انکو اپنے بچوں پر فوقیت دے۔‘‘
آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا نائینیؒ اور آیۃ اللہ العظمیٰ آقا ضیا عراقیؒ کے شاگرد آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمود حسینی شاہرودیؒ نے فرمایا : ’’میں مشکلات میں سو مرتبہ حضرت ام البنینؑ پر صلوات پڑھ کر اپنی حاجت حاصل کرتا ہوں۔‘‘
واقعہ کربلا کے بعد آپ کا دستور تھا کہ بیت الحزن میں جا کر شہدائے کربلا کی عزاداری فرماتی اور اپنی باقی زندگی کو نوحہ و گریہ میں بسر کیا اور آپ کے دلخراش نوحہ و گریہ سے دوست تو دست دشمن بھی اپنے آنسو نہیں روک پاتاتھا۔ اسی عالم میں 13؍ جمادی الثانی 64 ہجری کو دنیا سے گذر گئیں اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔