13 دسمبر، یوم وفات مولانا سید کلب عابد نقوی رضوان اللہ تعالی علیہ
مولانا سید کلب عابد نقوی مرحوم برصغیر کے معروف دینی علمی خانوادہ "خاندان آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقوی غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہ” میں یکم جمادی الثانی 1341 ہجری مطابق 19 جنوری 1923 عیسوی کو سرزمین لکھنؤ پر پیدا ہوۓ۔
آپ کے والد مولانا سید کلب حسین نقوی مرحوم تھے۔ مرحوم نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر اور محلّہ میں تجربہ کار اساتذہ سے حاصل کی، سن 1930 ء میں مدرسہ سلطان المدارس میں داخلہ لیا اور سن 1945ء میں فرسٹ ڈویژن سے صدر الافاضل کی سند حاصل کی۔
آپ کے اساتذہ میں سے مولانا الطاف حیدر مرحوم ، مولانا عبد الحسین مرحوم، مولانا ابن حسن مرحوم، مولانا سید محمد مرحوم اور مولانا سید حسین مرحوم کے اسماء سر فہرست ہیں۔
سن 1946 میں عراق تشریف لےگئے جہاں آیۃ اللہ العظمیٰ سید مہدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمود شاھرودی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر اساتذہ سے کسب فیض کرکے وطن واپس آگئے.
عراق سے واپسی کے بعد دسمبر 1950 عیسوی سے جون 1972عیسوی تک مدرسہ سلطان المدارس میں نائب مدرس اعلیٰ کی حیثیت سے تدریسی اور انتظامی فرائض انجام دئے ، کچھ عرصہ بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں شیعہ تھیولوجی کے ڈین کی حیثیت سے بلاۓ گئے جہاں سن 1974 سے سن 1983ء تک اس عہدے پر فائز رہے.
اپنے والد کی وفات کے بعد مسجد آصفی میں امام جمعہ کا منصب مستقل طور پر سنبھال لیا اور آخری عمر تک یہ فریضہ انجام دیتے رہے۔ اسی طرح والد مرحوم کے بعد تا حیات حسینیہ غفرانمآب لکھنو میں عشر اول خطاب فرمایا۔
سن 1943 ء میں آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد باقر رضوی مرحوم المعروف بہ باقر العلوم کی صاحبزادی سے آپ کا عقد ہوا جن سے تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہوۓ آپ کے بیٹے مولانا کلب جواد نقوی صاحب قبلہ (امام جمعہ شاہی آصفی مسجد لکھنو) اور سید کلب نقی عرف تنویر ہیں۔
آپ کے شاگردوں کی فہرست طویل ہے جن میں مولانا آغا جعفر (پاکستان) علامہ رضی جعفر (پاکستان) مولانا مرزا محمد عالم مرحوم (بانی جامعۃ التبلیغ لکھنو، خطیب اکبر مولانا مرزا محمد اطہر مرحوم، مولانا سید حسن نقوی، مولانا افتخار حسین (کشمیر) اور مولانا منظور محسن وغیرہ کے اسماء سر فہرست ہیں۔
مولانا سید کلب عابد نقوی مرحوم اپنی عظیم الشان شخصیت، نیک اخلاق، اعلی کردار، بے لوث دینی و علمی خدمت و قیادت سے مشہور ہیں، آپ نے نہ صرف شیعوں کی قیادت کی بلکہ بعض مواقع پر اپنی حکمت عملی سے مسلمانان ہند کی بے مثال رہنمائی فرمائی۔
اتحاد بین المسلمین کی داعی ہونے کے باوجود کبھی بھی شیعہ عقائد اور مسلمات سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ اپنی شخصیت کو کسی بھی قومی اختلاف و فتنہ کا شکار نہیں ہونے دیا، پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنا آپ کا خاصہ تھا۔ قومی مسائل میں ذاتیات سے اٹھ کر ہمیشہ اہل افراد سے مشورہ لیا اور اہل افراد کو ہی ساتھ لے کر چلے.
آخر 13 دسمبر 1986 مطابق 10 ربیع الثانی 1407 کو نصیرآباد ضلع راۓ بریلی سے مجلس پڑھکر دوسری مجلس پڑھنے کے لئے الہ آباد جا رہے تھے، الہ آباد سے تقریباً 15 کلو میٹر پہلے” پھاپھا مئو” میں شب میں ساڑھے آٹھ بجے ایک ٹرک نے اس کار کو پیچھے سے ٹکّر ماری جسمیں آپ سفر کر رہے تھے اس سے آپ کا ایکسیڈینٹ ہو گیا، آپ اس حادثہ کا شکار ہوئے اور داعی اجل کو لبیک کہا۔
الہ آباد سے جنازہ لکھنو لایا گیا، غسل و کفن کے بعد حسینیہ آصفی میں نماز جنازہ اہل تشیع نے ادا کی، اس کے بعد ٹیلہ والی مسجد کے صحن میں اہل سنت نے نماز جنازہ پڑھی بعدہ حسینہ غفران مآب لکھنو میں سپردخاک ہوئے۔
قابل ذکر ہے کہ الہ آباد سے لکھنو تک آپ کے جنازہ میں مجمع تاریخی تھا جس میں نہ صرف شیعہ بلکہ اہل سنت بلکہ دیگر ادیان و مذاہب کے لوگ بھی بڑی تعداد میں شامل تھے۔