10 دسمبر 1874 عیسوی۔ یوم وفات میر انیس رحمۃ اللہ علیہ
شاعر حسینی خدائے سخن میر انیس رحمۃ اللہ علیہ
اردو زبان و ادب کی روح و جان سمجھی جانے والی عظیم شخصیت جس نے اردو زبان و ادب کو وہ منزل کمال عطا کی کہ اگر کوئی میر انیس کے بغیر اردو زبان و ادب سیکھنا چاہے تو ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے۔
میر انیس رحمۃ اللّٰہ علیہ کا نام میر ببر علی تھا۔ آپ ایک شیعہ سید دیندار علمی اور ادبی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد میر خلیق مرحوم اور دادا میر حسن مرحوم بھی مرثیہ گو شاعر تھے۔ اس کے علاوہ دیگر بزرگان بھی مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی میں مشہور تھے۔
اسی طرح میر انیس کی نسل میں بھی مرثیہ گوئی، مرثیہ خوانی اور ذکر مظلوم کربلا رائج رہا کہ مشہور محقق جناب مالک رام نے ان کی گیارہویں نسل کے فرزند کو خط لکھا جس میں خاندانی انیس کے اسلاف و اخلاف کی خدمات کو بہت سراہا ہے، انہوں نے لکھا "ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کی کسی اور بھی زبان میں کسی ایک خاندان کے افراد نے نسل در نسل اتنے زمانے تک اس تواتر اور تسلسل سے یہ خدمت انجام نہیں دی ہے۔” لہذا کہا جا سکتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام خصوصا سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور شہیدان کربلا علیہم السلام کے سلسلہ میں اس عظیم خانوادہ کی خدمات کئی صدیوں پر محیط ہے۔
میر انیس رحمۃ اللہ علیہ نے تقریبا 1200 مرثیے لکھے، 600 رباعیات اور نوحے وغیرہ کہے ہیں۔ آپ نے ایک سو ستاون (157) بند یعنی ایک ہزار ایک سو بیاسی (1182) مصرعوں کا یہ شاہکار مرثیہ "جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے” ایک ہی شب میں لکھا اوراپنے خاندان کے عشرۂ مجالس میں پڑھا اور اسی مرثیہ کا منظوم عربی ترجمہ سید العلماء علامہ سید علی نقی نقوی مرحوم نے فرمایا۔ جب عرب زبان علماء و دانشوروں نے ملاحظہ فرمایا تو تصویر حیرت بن گئے کہ اردو زبان میں بھی ایسا شاہکار موجود ہے اور مرحوم کے اعلی افکار کی مدح و ستائش اور علوئے درجات کی دعا کی۔
آپ کے مرثیوں میں آیات و روایات، تاریخ، تخیل، ماحول، سراپا، رَجَز، مظلومیت، آہ و بکا، مکالمات، اعداد و شمار، منطق و فلسفہ، علومِ جہانی اور اصول و عقائد کے مفاہیم کی ایسی متوازن آمیزش ملتی ہے کہ انیس کے علم و فضل کی وسعتیں بیکراں محسوس ہونے لگتی ہیں۔ البتہ مرزا دبیر رحمۃ اللہ علیہ کے مقابلہ آپ سلیس زبان استعمال کرتے تھے۔ ظاہر ہے مرحوم صرف ایک شاعر نہ تھے بلکہ ایک عالم بھی تھے کہ آپ کے کتب خانہ میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ کتابیں موجود تھیں۔
میر انیس رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے واضح ہے کہ آپ اپنی زندگی میں کبھی کربلا معلی نہیں گئے لیکن جب آپ کربلا کی منظر کشی کرتے ہیں تو پڑھنے والا تصویر حیرت بن جاتا ہے۔
میر انیس پر علامہ اقبال لاہوری، مرزا غالب، مولانا محمد حسین آزاد جیسے عظیم اہل علم و نظر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور اب تک نہ جانے آپ پر کتنی پی ایچ ڈی ہو چکی ہیں۔ تفصیلات کے لئے کتابیں اور رسائل و جرائد کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔ جوش ملیح آبادی نے آپ کے سلسلہ میں فرمایا
تیری ہر موجِ نفَس روح الامیں کی جان ہے
تُو مِری اردو زباں کا بولتا قرآن ہے۔
میر صاحب نے منظر کشی فرمائی کہ امام حسینؑ میدانِ کربلا میں فوجِ یزید کو اپنا تعارف کراتے ہیں
میں ہوں سردارِ شبابِ چمنِ خلدِ بریں
میں ہوں خالقِ کی قسم دوشِ محمدؑ کا مکیں
مجھ سے روشن ہے فلک، مجھ سے منوّر ہے زمیں
میں ہوں انگشترِ پیغمبرِ خاتم (ص) کا نگیں
ابھی نظروں سے نہاں نور جو میرا ہوجائے
محفلِ عالَمِ امکاں میں اندھیرا ہوجائے۔
آخر میں یہ بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میر صاحب صرف اہل بیت علیہم السلام کے مداح تھے، آپ کا کلام آیت تطہیر کے حصار میں رہا کبھی کسی اور کی مدح نہ کی۔ آپ نے قصر شاہی میں بادشاہ کے حضور میں برسر منبر فرمایا۔
غیر کی مدح کروں شہ کا ثنا خواں ہو کر
مجرئی اپنی ہوا کھووں سلیماں ہو کر
یقینا آپ کا یہ کلام اہل بیت علیہم السلام کے شعراء اور ذاکرین کے لئے درس ہے کہ صرف تذکرہ آل محمد علیہم السلام ہی کریں۔
آپ ایک دیندار اور خوددار شخصیت تھے، کبھی کسی شاہ و رئیس کی مدح نہیں کی۔ شاعر حسینی میر انیس مرحوم نے اپنے انتقال سے قبل اپنے مولا کی تاسی کرتے ہوئے اپنی قبر کی جگہ خود خریدی کہ جب 10 دسمبر 1874 عیسوی کو رحلت فرمائی تو اپنی خریدی ہوئی زمین پر دفن ہوئے۔
عاشقان آل محمد علیہم السلام اور عزاداران امام حسین علیہ السلام سے سورہ فاتحہ کی گزارش ہے۔