شام میں پیچیدہ اور تیز رفتار تبدیلی، بشار الاسد کی حکومت کا زوال اور ملک کا سیاسی مستقبل
دمشق میں بشار الاسد کے خلاف مسلح گروہوں کی آمد اور حساس مقامات پر قبضہ کے بعد کہا جا رہا ہے کہ بشار الاسد ملک چھوڑ چکے ہیں اور شام میں اقتدار کی منتقلی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔
دریں اثنا، بشار الاسد کے مخالفین اور اقوام متحدہ سمیت مختلف گروہ سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
تنازعات میں شدت اور بشار الاسد کے خلاف مسلح گروپوں کی دمشق کی جانب تیزی سے پیش قدمی کے بعد میڈیا کے مطابق بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا ہے۔
ہفتہ کے روز ایران، ترکی اور روس سمیت پانچ ارب ممالک اور تین علاقائی طاقتوں کی جانب سے ایک مشترکہ بیان شائع ہوا، جس میں شام کے بحران کے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔اس بیان میں موجودہ بحران کو علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا گیا اور فریقین سے کہا گیا کہ وہ تشدد جاری رکھنے کے بجائے سیاسی مذاکرات شروع کریں۔
شامی حکومت کے مسلح حزب اختلاف نے اعلان کیا کہ انہوں نے دمشق پر قبضہ کر لیا ہے اور بشار الاسد کے فرار کے بعد پانچ دہائیوں سے زیادہ پر محیط بعثی حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ باغیوں نے یہ بھی اطلاع دی کہ انہوں نے کچھ اہم سرکاری تنصیبات پر کنٹرول کر لیا ہے جن میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی عمارت اور اسد حکومت کی جیلیں شامل ہیں۔
شام کے وزیراعظم محمد جلالی نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت عوام کی منتخب قیادت کو اقتدار منتقل کرنے کے لئے تیار ہے اور اپوزیشن کی جانب ہاتھ بڑھاتی ہے۔
تحریر الشام کے سردار احمد الشراع المعروف بے ابو محمد جولانی نے اعلان کیا کہ ملک کے سرکاری ادارے سابق وزیراعظم کی حکومت کی باضابطہ طور پر ان کی افواج کے حوالے ہونے تک ان کی نگرانی میں رہیں گے۔
تاہم بعض ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی کہ بشار الاسد کو لے جانے والا طیارہ گر کر تباہ ہو سکتا ہے یا اسے نشانہ بنایا گیا ہے۔ جبکہ ان کے خاندان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ روس میں پناہ لئے ہوئے ہیں، کچھ رپورٹس میں بشار الاسد کے دمشق چھوڑنے کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
یہ تبدیلی اس وقت ہوئی ہے جب اقوام متحدہ اور مغربی ممالک سیاسی منتقلی اور انسانی سلامتی کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بھی شام میں ایک نئی حقیقت کے رونما ہونے کے بارے میں بات کی اور اس بات پر زور دیا کہ اس ملک کے مستقبل کا فیصلہ شامی عوام کے ہاتھ سے ہونا چاہیے۔
اس حوالہ سے شامی قومی اتحاد کے سربراہ نے اعلان کیا کہ اقتدار کے منتقلی کا عمل اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہوگا اور اس کا بنیادی ہدف شام میں سلامتی کو برقرار رکھنا اور معمول کی زندگی کی جانب لوٹنا ہے۔
یہ تیزی سے سامنے آنے والی پیچیدہ تبدیلی شام میں ایک نئے دور کے آغاز کی نشاندہی کرتی ہے جو علاقائی اور بین الاقوامی مساوات میں سنگین تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے۔