ایمنسٹی انٹرنیشل نے پاکستان کے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم روکنے کا مطالبہ کیا
ایمنسٹی انٹرنیشل نے ایک بیان شائع کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے کہا کہ وہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دینے سے گریز کرے، جو فوج اور مسلح افواج کو لوگوں کو 3 ماہ تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے، کیونکہ یہ انسانی حقوق اور بین الاقوامی معیارات کے خلاف ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشل نے بدھ کو پاکستانی حکومت سے انسداد دہشت گردی ایکٹ 2024 میں مجوزہ ترمیم کو روکنے کا مطالبہ کیا۔
یہ منصوبہ جو حال ہی میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا، فوج اور مسلح افواج کو دہشت گردی کے جرائم میں ملوث افراد کو 3 ماہ کے لئے احتیاطی حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے سلسلہ میں سنگین خدشات کا ذکر کرتے ہوئے انسانی حقوق کی اس تنظیم نے اس منصوبہ کو شہری اور سیاسی حقوق کی بین الاقوامی معاہدہ اور انسانی حقوق کے معیارات کے خلاف سمجھا ہے۔
یہ ترمیمی منصوبہ فوج اور مسلح افواج کو قومی سلامتی، امن عامہ یا سروس کی فراہمی کو خطرے میں ڈالنے کے الزام میں کسی بھی شخص کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کا اختیار بھی دیتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشل نے زور دیا کہ یہ لامحدود طاقت من مانی اور طویل حراستوں کا باعث بن سکتی ہے، جس سے انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی مخالفین پر اس کے اثرات کے بارے میں مزید خدشات بڑھ سکتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشل نے اس خدشہ کا اظہار بھی کیا کہ یہ قانون قانون نافذ کرنے والی کاروائیوں میں فوجی دستوں کی شرکت کا باعث بنے گا، جو انسانی حقوق کے اصولوں اور معیارات کے خلاف ہے۔
انسانی حقوق کی اس تنظیم نے حکومت پاکستان سے کہا کہ وہ اس ترمیم کو منظور کرنے کے بجائے سول سوسائٹی کی تنظیموں سے مشاورت کرے اور انسانی حقوق کے احترام کے لئے انسداد دہشت گردی کے قوانین میں حقیقی ترمیم کی جانب قدم اٹھائے۔