طالبانی سردار کا نیا حکم، افغانستان میں 13 سال میں کوئی خاتون ڈاکٹر نہیں ہوگی
طالبانی سردار کا صحت کے اداروں میں لڑکیوں کے داخلے پر پابندی کا نیا حکم، جس پر رد عمل سامنے آیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشل نے اس حکم کو طالبان کے خواتین اور لڑکیوں پر ان کی جنس کے سبب سے منظم حملوں کا حصہ قرار دیا ہے۔افغان خواتین کے حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ طالبانی سردار کے نئے حکم نامہ کے مطابق افغانستان میں 13 سال بعد کوئی خاتون ڈاکٹر نہیں ہوگی۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی تیار کردہ رپورٹ پر توجہ دیں۔افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان گروپ نے چھٹی جماعت سے اوپر کی لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے لئے تمام اعلی تعلیمی مراکز میں گزشتہ تین برسوں سے تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔
اس گروہ کے سردار کے نئے حکم نے افغان لڑکیوں کی تعلیم کے تابوت پر آخری کیل بھی ٹھونک دی۔اس حکم نامہ کے مطابق افغانستان بھر میں تمام اعلی ونیم علی صحت کے مراکز طالبات کے لئے بند کر دیے گئے۔
طالبانی سردار کے نئے حکم نامہ کے جواب میں ایمنسٹی انٹرنیشل نے کہا کہ اس فیصلہ کے افغانستان میں خواتین کی صحت کے لئے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔اس ادارہ کے مطابق افغانستان میں زچکی کی شرح اموات بہت زیادہ ہے۔
افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم کارکنان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے اسکولوں، کالجوں اور صحت کے اعلی اداروں کے دروازے لڑکیوں کے لیے بند کرنے کا مطلب ہے کہ افغانستان میں اگلے 13 برس میں خواتین ہیلتھ گریجویٹس نہیں ہوں گی۔
طالبان کا یہ نیا حکم ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ہسپتال اور کلینک خواتین ڈاکٹروں اور نرسوں کی کمی کا شکار ہیں۔اس کے علاوہ طالبانی سردار کے حکم نامہ کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کو مرد ڈاکٹر سے ملنے کا حق نہیں ہے، طالبان کے نئے فیصلے سے ملک صحت کے گہرے بحران میں گر جائے گا اور افغان صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔
اس سے قبل عالمی ادارہ صحت نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان بھر میں ہر روز 24 مائیں اور 167 بچے حمل اور بچے کی پیدائش سے متعلق قابل علاج بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
افغانستان کے شہروں کو وبائی امراض، خشک سالی اور حالیہ سیلاب کے سبب سے خوراک اور غذائیت کی کمی کا سامنا ہے۔ خواتین اور بچے سب سے زیادہ کمزور لوگوں میں شامل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی خبردار کیا کہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے افغانستان میں خواتین کی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔