عفاف اور حجاب کے نئے قانون کی وسیع پیمانے پر مخالفت، علماء اور آزاد وکلا فکرمند
عفاف اور حجاب کے نئے قانون کو علماء اور آزاد وکلا کے منفی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔
ان لوگوں نے اس قانون کے نفاذ اور قانونی مسائل کی نشاندہی کی اور معاشرے پر اس کے اثرات سے باخبر کیا۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی تیار کردہ رپورٹ پر توجہ دیں۔
عفاف اور حجاب سے متعلق نئے قانون، جسے حال ہی میں ایرانی پارلیمنٹ نے منظور کیا ہے، کو آزاد علماء کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا ہے۔
مجمع محققین و مدرسین حوزہ علمیہ قم کے رکن محمد علی ایازی کا کہنا ہے کہ اس قانون میں اچھے قانون کی کوئی خصوصیت نہیں ہے اور اس نے ملک کے اہم مسائل پر توجہ دینے کے بجائے معمولی مسائل پر توجہ مرکوز کی ہے۔
جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے رکن علی اکبر مسعودی خمینی کا بھی خیال ہے کہ حکومت کو اس قانون پر عمل درآمد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس اقدام سے بحران پیدا ہوگا۔
حوزہ علمیہ قم کے استاد محسن غرویان نے بھی قانون کے نفاذ کے مسائل کے بارے میں باخبر کیا اور امید ظاہر کی کہ ممکن ہے کہ صدر جمہوریہ اعلان کریں کہ یہ قانون نافذ نہیں ہوگا۔
گروہ مطالعات اسلامی فرہنگستان علوم ایران کے ڈائریکٹر سید مصطفی محقق داماد نے مراجع تقلید کو لکھے گئے ایک خط میں اس قانون پر تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس کی بہت سی شقیں نہ صرف ناقابل عمل ہیں بلکہ اس کے برخلاف اثر بھی ہو سکتا ہے اور ممکن ہے نوجوان نسل اسلامی تعلیمات سے متنفر ہو جائے۔
انہوں نے مسوؤلین سے کہا کہ وہ حجاب کے مسئلہ کو قانونی دباؤ کے بجائے ثقافت کے ذریعہ حل کریں۔
حوزہ علمیہ قم مقدس میں درس خارج فقہ و اصول کے استاد سید محمد ہاشمی اصفہانی نے بھی اس قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون شرعی معیارات سے ہم آہنگ نہیں ہے اور اس پر زیادہ غور کرنا چاہیے۔
بہت سے علماء کی رائے ہے کہ حجاب کے مسئلہ کو ثقافتی اور علمی طریقوں سے آگے بڑھانا چاہیے نہ کہ ایسے سخت طریقوں سے جو عوام اور حکومت کے درمیان زیادہ فاصلہ پیدا کریں۔
دوسری جانب آزاد وکلاء اس قانون پر سخت اعتراض کرتے ہیں۔
محسن برہان نے ڈرائیوروں کی جانب سے حجاب کی جاسوسی کی ذمہ داری پر تنقید کی ہے اور اسے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
محمود صادقی نے اس قانون کی منظوری میں رائے عامہ پر توجہ نہ دینے کی جانب بھی اشارہ کیا اور پارلیمنٹ سے کہا کہ وہ رائے عامہ کو زیادہ اہمیت دے۔
بہت سے وکلاء کا خیال ہے کہ یہ قانون نہ صرف ناقابل عمل ہے بلکہ سنگین قانونی اور سماجی مسائل پیدا کرے گا۔
مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید صادق حسینی شیرازی دام ظلہ نے علمی جلسہ میں لوگوں کو حکم اور حجاب کی پابندی جیسے فرائض کی انجام دہی پر مجبور کرنے کے سلسلہ میں فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی تاریخ میں اور امیر المومنین علیہ السلام کی تاریخ میں ہرگز نہیں ملتا کہ کبھی لوگوں کو کسی چیز پر مجبور کیا گیا ہو۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے مزید فرمایا: بلکہ روایات اس کے برخلاف ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: "اگر تم زکوۃ وصول رہے ہو اور کوئی کہے کہ میرے پاس نہیں ہے، اگرچہ وہ جھوٹ بول رہا ہو تب بھی اسے مجبور نہ کیا جائے۔” یہ معنی تمام واجبات میں نافذ ہوتا ہے اور اس مسئلہ میں فقہاء کا اتفاق ہے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیرازی نے فرمایا: حدود الہی جو کہ ایک اہم ترین فریضہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اور امیر المومنین علیہ السلام کے دور میں ہزاروں مواقع پر بند ہوئے، لہذا ایسے معاملات انتہائی خفیف اور معمولی ہیں۔ اگر یہ لوگوں میں حتی کافروں میں مایوسی کا باعث بنے تو اس پر عمل در آمد جائز نہیں ہے۔