ایک طرف اجمیر کے درگاہ پر تنازع پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو دوسری طرف اجمیر میں ہی واقع قدیم مسجدوں میں سے ایک اور تاریخی اہمیت کے حامل ’ڈھائی دن کا جھونپڑا‘پر بھی بلاوجہ تنازع پیدا کیا جارہا ہے۔ نیا تنازع ڈھائی دن کا جھونپڑا میں پڑھی جانے والی نماز کے تعلق سے ہے۔ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ یہاں نماز بند کروائی جائے۔دراصل کچھ دنوں قبل ہندو اور جین مذہب سے تعلق رکھنے والے کچھ سادھو ڈھائی دن کا جھونپڑا پہنچے تھے اور نماز پڑھے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں کے گربھ گرہ اور باہر کی دیواروں کے کھمبوں پر صاف صاف ہندو-جین مندر کا طرز تعمیر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لئے ڈھائی دن کا جھونپڑا میں نماز نہیں پڑھی جانی چا ہئے۔ یہ تنازع شروع ہوا تھا جب ایک جین سادھو اسے دیکھنے کے لئے پہنچے تھے۔ اس وقت انہیں کچھ لوگوں نے اندر داخل ہونے سے روک دیا تھا۔
اس کے بعد ہنگامہ پیدا ہو گیا تھا، کیونکہ ڈھائی دن کا جھونپڑا ایک سیاحتی مقام ہے۔ اس کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کی ہے۔ اس واقعہ کے بعد اجمیر سمیت ملک بھر کے جین طبقہ نے انتظامیہ کے سامنے اعتراض ظاہر کیا تھا۔
واضح رہے کہ ڈھائی دن کا جھونپڑا ۱۱۹۲ء میں افغان سپہ سالار محمد غوری کے حکم پر قطب الدین ایبک نے بنوایا تھا۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس جگہ پر ایک بہت بڑا سنسکرت اسکول اور مندر تھا جنہیں توڑ کر مسجد بنایا گیا تھا۔ ڈھائی دن کے جھونپڑا کے صدر دروازے کے بائیں طرف سنگ مرمر کی بنی ایک نقاشی بھی ہے جس پر سنسکرت میں اس اسکول کا تذکرہ ہے۔ اس مسجد میں مجموعی طور پر ۷۰؍ ستون ہیں۔ڈھائی دن کے جھونپڑا کے بارے میں یہ جاننا دلچسپ ہے کہ محمد غوری جب پرتھوی راج چوہان کو شکست دینے کے بعد اجمیر سے گزر رہا تھا تو اسی دوران یہاں اس نے ڈھائی دن میں یہ مسجد تعمیر کروائی تھی۔