نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سنبھل کی جامع مسجد تنازعہ میں اہم ہدایات جاری کی ہیں۔ عدالت نے نچلی عدالتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی بھی کارروائی نہ کریں جب تک ہائی کورٹ سے کوئی واضح ہدایت نہ ملے۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ کی سربراہی میں بنچ نے کہا کہ مسجد کمیٹی کو اپنے قانونی اختیارات کا استعمال کرنے کا موقع دیا جائے، چاہے وہ ہائی کورٹ ہو یا ڈسٹرکٹ کورٹ۔ اس کے ساتھ یوگی حکومت کو بھی غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنے کی نصیحت کی گئی
سپریم کورٹ نے اتر پردیش حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ علاقے میں امن و ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کرے۔ عدالت نے ایڈوکیٹ کمشنر کی رپورٹ کو مہر بند لفافے میں رکھنے اور اسے نہ کھولنے کا بھی حکم دیا ہے۔
19 نومبر کو سنبھل کی سول عدالت کے جونیئر جج نے جامع مسجد کے سروے کا حکم جاری کیا تھا۔ 24 نومبر کو جب سروے ٹیم جامع مسجد پہنچی تو علاقے کے افراد اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں تشدد بھڑک اٹھا اور 6 افراد جان کی بازی ہار گئے۔
کیس کی سماعت کے آغاز میں جامع مسجد کمیٹی کی جانب سے سینئر وکیل حفیظہ احمدی نے سپریم کورٹ کے سامنے نچلی عدالت کے حکم کی کاپی پیش کی۔ اس پر چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ نے کہا کہ عدالت حکم دیکھ چکی ہے لیکن کیس پر کوئی تبصرہ نہیں کرے گی۔ مسجد کمیٹی کو اپنے قانونی حقوق استعمال کرنے کا پورا موقع دیا جائے گا، خواہ وہ ضلع عدالت ہو یا ہائی کورٹ۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں بینچ کے سامنے وکیل احمدی نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ایسے 10 مقدمات زیر التوا ہیں، جہاں فوراً سروے کا حکم دے دیا گیا اور سروے کمشنر بھی تعینات کردیا گیا۔ انہوں نے درخواست کی کہ ایسے احکامات روکے جائیں۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ہائی کورٹ کی اجازت کے بغیر اس معاملے میں مزید کارروائی نہیں ہوگی اور ٹرائل کورٹ 8 جنوری تک کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔ سپریم کورٹ نے مسجد کمیٹی کو بتایا کہ انہیں سویل جج کے حکم کو چیلنج کرنے کا حق حاصل ہے اور وہ سی پی سی اور آئین کے تحت اپیل کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ضلع انتظامیہ کے وکیل ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج کو کہا کہ اس مرحلے پر ہم کوئی فیصلہ نہیں دیں گے لیکن اس بات کو یقینی بنائیں کہ علاقے کے حالات ٹھیک رہیں اور امن و ہم آہنگی برقرار رہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ تمام فریقین کو غیرجانبدار رہنا ہوگا اور قانونی راستوں کا استعمال کرنا ہوگا۔
یہ معاملہ سنبھل کی جامع مسجد کے تعلق سے پیدا ہوئے تنازعہ سے جڑا ہے، جہاں کچھ فریقین نے مسجد کی ملکیت کو چیلنج کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ ایک پرانے مندر کے مقام پر بنائی گئی ہے۔ مسجد کمیٹی کے مطابق، حالیہ سروے میں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا جو ان دعوؤں کی تصدیق کرے۔ دوسری جانب، ہندو فریق قدیم مندر کے آثار کی موجودگی پر اصرار کر رہا ہے۔
نماز جمعہ کے موقع پر کشیدگی کے پیش نظر سنبھل میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ نے علاقے میں اضافی فورس تعینات کی ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔ عوام سے امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کی ہدایات کے بعد فریقین کے پاس قانونی راستے موجود ہیں، لیکن معاملے کے حل کے لیے مقامی انتظامیہ کو تمام فریقین کے پاس قانونی راستے موجود ہیں، لیکن معاملے کے حل کے لیے مقامی انتظامیہ کو تمام فریقین کے ساتھ تعاون کو یقینی بنانا ہوگا۔