افغانستان کی کانیں، طالبان کے دور میں مواقع اور چیلنجز
طالبان حکومت نے 415 ارب افغانی کرنسی کی سرمایہ کاری سے افغانستان کی 21 بڑی کانوں میں کان کنی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ کانوں کو شفاف طریقہ سے ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
لیکن مخالفین ان معاہدوں کو غیر قانونی سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے عوام معدنی دولت سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
طالبان حکومت نے اعلان کیا کہ گذشتہ تین برسوں سے افغانستان کی 21 بڑی کانوں میں 415 بلین افغانی کی سرمایہ کاری سے کان کنی شروع ہو چکی ہے۔
سونے، لوہے، تانبے اور کوئلے کی کانیں افغانستان کے مختلف صوبوں جیسے ہرات، قندھار اور پنجشیر میں موجود وسائل میں سے ہیں۔
طالبان حکام نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کی کانوں کو شفاف طریقہ سے اور آزادانہ مقابلہ کی بنیاد پر ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کیا گیا ہے اور ان کانوں میں حکومت کا حصہ 13 سے 56 فیصد کے درمیان ہے۔
تاہم طالبان کے مخالفین ان معاہدوں کو غیر قانونی سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ افغانستان کی بارودی سرنگیں اس ملک کے لوگوں کے لئے مختص کی جانی چاہیے نہ کہ مخصوص گروہوں کے لئے۔ وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ کان کنی سے لوگوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانے پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔
جبکہ چین اور خطہ کے ممالک نے طالبان کے ساتھ کان کنی کے معاہدے کئے ہیں۔ افغان عوام کی معاشی صورتحال اب بھی نازک ہے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ افغانستان میں غربت، بے روزگاری اور قحط پھیل رہا ہے اور بہت سے لوگ پڑوسی ممالک میں پناہ کی تلاش میں ہیں۔
آخر میں، بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا یہ کان کنی افغان عوام کی معاشی صورتحال میں بہتری کا باعث بن سکتی ہے یا یہ صرف ایک مخصوص گروہ کے مفادات کے تحفظ تک محدود رہے گی؟