ایشیاءخبریںدنیا

اقوام متحدہ: میانمار میں بے گھر ہوئے۳۴؍ لاکھ افراد میں تقریباً ۴۰؍ فیصد بچے

اقوام متحدہ کے بچوں کیلئے کام کرنے والے ادارے نے جمعرات کو کہا کہ میانمار میں خانہ جنگی اور قدرتی آفات میں بے گھر ہونے والے ۳۴؍ لاکھ لوگوں میں سے تقریباً۴۰؍ فیصد بچے ہیں۔ میانمار میں ۲۰۲۱ء میں فوج کے ذریعے آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو معزول کرکے فوجی حکومت قائم ہونے کے بعد سے جنتاحکومت کو مسلح عوامی بغاوت کا سامنا ہے۔

جنوب مشرقی ایشیائی ملک کو ستمبرمیں یاگی طوفان نے تباہ کردیاتھا، جس میں ۴۰۰؍ سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں افراد کو اپنے آشیانے سے محروم ہونا پڑا۔یونیسیف کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ٹیڈ چائیبان نے جمعرات کو ایک بیان میں کہاکہ ’’میانمار میں انسانی بحران ایک نازک موڑ پر پہنچ رہا ہے، جس میں بڑھتے ہوئے تصادم اور موسمیاتی آفات نے بچوں اور خاندانوں کو انتہائی خطرے میں ڈال دیا ہے، ملک بھر میں ۳۴؍ لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جن میں ۴۰؍ فیصد بچے ہیں۔‘‘

فوجی حکومت جنتا ۲۰۲۱ء سے وسیع پیمانے پر مسلح بغاوت سے نبرد آزما ہے، جس پر الزام ہے کہ اس کے فوجی خونی انتقام اور شہریوں کے خلاف توپ خانہ کا استعمال اور فضائی حملے کر رہے ہیں۔چائیبان کے مزید کہا کہ’’ مسلح تصادم اور طوفان نے بچوں پر تباہ کن اثر ڈالا ہے، جس کے نتیجے میں وہ بے گھرہو گئے، انہیں تشدد کا شکار ہونا پڑا، ساتھ ہی وہ حفضان صحت اور تعلیم سے محروم ہو گئے۔‘‘انہوں نے کہا کہ’’ شہری علاقوں میں مہلک ہتھیاروں کے بڑھتے ہوئے استعمال، بشمول فضائی حملوں اور بارودی سرنگوں سے، گھروں،اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنانے سے ۱۰۰۰؍ افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک تہائی تعداد بچوں کی تھی ۔

اس قسم کے حملوں نے بچوں کیلئے پہلے سے ہی محدود محفوظ جگہوں کو مزید محدود کر دیا ہے، اوران کے تحفظ اور سلامتی کے حق کو چھین لیا ہے۔‘‘ایک مقامی مسلح نسلی گروپ نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے ایک چائے کی دکان پرفوج کے فضائی حملے میں شمالی شان ریاست کے نانگچو قصبےمیں ۱۱؍ افراد ہلاک ہو گئے۔ جبکہ امسال ملک میں تصادم کے نتیجے میں ۶۵۰؍ بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔

متعلقہ خبریں

Back to top button