تاجکستان طالبان کی بے چینی، کیا جماعت انصار اللہ ٹوٹ چکی ہے؟
شدت پسند سنی گروپ جماعت انصار اللہ یا تاجک طالبان جو کہ 2006 سے تاجکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے لڑ رہے ہیں، افغان طالبان کے ساتھ برسوں کام کرنے کے بعد اب کنفیوزن کا شکار ہیں۔
گروپ کے سربراہ مہدی ارسلان کی گمشدگی اور اس کی عسکری سرگرمیوں میں کمی کے بعد گروپ کے بہت سے ارکان روزمرہ کی زندگی میں واپس آ گئے ہیں جبکہ کچھ تاجک حکومت کے خلاف لڑائی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
شدت پسند سنی گروپ جماعت انصار اللہ جس کی بنیاد 2006 میں تاجکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے مسلح جدوجہد کے مقصد سے رکھی گئی تھی افغان طالبان کے ساتھ مل کر 18 سال کی لڑائی کے بعد اب کنفیوزن کا شکار ہے۔
یہ گروپ جو بنیادی طور پر تاجک انتہا پسند اسلام پسندوں پر مشتمل ہے، نے اصل میں تاجک حکومت کے خلاف مسلح جنگوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنی اسلامی حکومت قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
چند برسوں کے دوران گروپ کے پہلے رہنما امرالدین طباروف کی موت اور قیادت میں مہدی ارسلان کی جانشینی کے بعد جماعت انصار اللہ نے افغان طالبان کے ساتھ مل کر عسکری سرگرمیاں انجام دی ہیں۔ لیکن افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آتے ہی دہشت گرد گروہوں اور دیگر شدت پسند سنیوں خصوصا جماعت انصار اللہ کے ساتھ طالبان کے تعاون پر تنقید میں شدت آئی اور یہ گروہ پسماندہ ہو گیا۔
فی الحال اس گروپ کے سرداروں کی صورتحال واضح نہیں ہے۔
جنوری 2024 میں مہدی ارسلان گمشدہ ہو گئے اور اس کے بعد سے ان کی کوئی خبر نہیں ہے۔
درایں اثنا، بعض ذرائع نے اس گروپ کے فوجی ڈھانچے کے ٹوٹ جانے اور سرحدی بازاروں میں معمول کی زندگی کے لئے کچھ ارکان کی بھرتی کی اطلاع دی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ انصار اللہ جماعت کے ارکان کے ٹیلی گرام چینلز پر تاحال تاجکستان حکومت کے خلاف جہاد کے پیغامات شائع ہو رہے ہیں۔
رپورٹس یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ ملکی اور غیر ملکی جہادی گروپ بشمول داعش خراسان کے شدت پسند سنی افغانستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن جماعت انصار اللہ کی کنفیوزن اور ڈگمگانے سے اس گروہ کے تقریبا ختم ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے۔