خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق باکو میں منتعقدہ عالمی موسمیاتی کانفرنس کے دوران پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے ہائی کمشنر نے اس بات کو اجاگر کیا کہ کس طرح عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والے واقعات مہاجرین کی تعداد اور ان کی حالت پر اثر انداز ہورہے ہیں۔
انہوں نے ان خطرات کو کم کرنے کے لیے زیادہ اور مؤثر سرمایہ کاری کرنے کا مطالبہ کیا۔
عالمی ادارہ برائے پناہ گزین کی ایک حالیہ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کس طرح سوڈان، سومالیہ اور میانمار جیسے ممالک میں موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ تنازعات متاثرہ لوگوں کو مزید سنگین حالات کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے سربراہ فلیپو گرینڈی نے رپورٹ کے پیش لفظ میں کہا کہ’ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث، خشک سالی، سیلاب، جان لیوا گرم اور دیگر سنگین موسمی حالات خوفناک تعداد میں ہنگامی صورتحال پیدا کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور لوگ اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اعداد و شمار کے مطابق مہاجرین کی 75 فیصد آبادی ان ممالک میں رہتی ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے موسمیاتی تبدیلی کی رفتار اور پیمانہ بڑھتا جائے گا، اس تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔’
یو این ایچ سی آر کے جون کے اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ 20 لاکھ افراد جنگ، کشیدگی اور جارحیت کی وجہ سے جبری طور پر بے گھر ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کے لیے یو این سی آر کے خصوصی مشیر اینڈریو ہارپر نے اے ایف پی کو بتایا کہ’ عالمی طور پر، پچھلے 10 سالوں میں تنازعات کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔
دریں اثنا، یو این ایچ سی آر نے اندرون ملک نقل مکانی کے ادارے کے حالیہ اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی آفات نے صرف گزشتہ دہائی کے دوران تقریباً 20 کروڑ افراد کو بے گھر کیا ہے جو تقریباً یومیہ 60 ہزار افراد کے بے گھر ہونے کے برابر ہے۔
اینڈریو ہارپر کا کہنا تھا کہ ہم بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد میں دن بد دن اضافہ دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے نقل مکانی کرنے والے اور ان کی میزبانی کرنے والی کمیونٹیز کی مدد کے لیے درکار فنڈز کی شدید کمی پر افسوس کا اظہار کیا۔
یو این سی آر کے خصوصی مشیر نے کہا کہ ہم انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا کررہے ہیں، پناہ گزینوں کی آبادی والے زیادہ تر علاقے کم آمدنی والے ممالک پر مشتمل ہیں، اکثر ایسے صحراؤں میں جو سیلاب کے لیے حساس ہیں جہاں موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات سے نمٹنے کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچہ تک موجود نہیں۔’
یو این ایچ سی آر کا کہنا تھا کہ حالات مزید ابتر ہوں گے، 2040 تک دنیا میں موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہونے والے ممالک کی تعداد 3 سے بڑھ کر 65 ہوجائے گی۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 2050 تک، زیادہ تر پناہ گزینوں کی بستیوں اور کیمپوں کو آج کے مقابلے میں دوگنی مہلک گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یو این ایچ سی آر نے باکو اجلاس میں شریک فیصلہ سازوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی موسمیاتی مالی امداد پناہ گزینوں اور ان کی میزبانی کرنے والی کمیونٹیز تک پہنچے۔