اسلامی دنیاتاریخ اسلاممقالات و مضامین

10 جمادی الاول، جنگ جمل

جنگ جمل یعنی ناکثین، بیعت توڑنے والوں، غداروں اور دنیا طلبوں کے سبب مسلمانوں کی پہلی آپسی‌ جنگ۔

امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی حکومت عدل میں پہلی جنگ، جنگ جمل ہے جو عائشہ بنت ابی بکر اور طلحہ و زبیر نے تیسرے حاکم عثمان بن عفان کے قتل کے انتقام کے نام پر برپا کی۔

جنگ جمل سن 36 ہجری کو عراق کے شہر بصرہ کے اطراف میں ظہر سے غروب آفتاب تک ہوئی، چونکہ اس جنگ میں عائشہ بنت ابی بکر ایک لال بالوں والے عسکر نامی اونٹ پر بیٹھی تھیں لہذا اسے جنگ جمل کہتے ہیں۔

العجب ثم العجب جو لوگ تیسرے حاکم کی حکومت کے خلاف مجسمہ احتجاج و اعتراض تھے اور ان کے قتل کی باتیں کرتے تھے بلکہ ان کے قتل پر لوگوں کو اکساتے تھے اور ان کے قتل پر خوشی منا رہے تھے لیکن جیسے ہی انہیں یہ پتہ چلا کہ حکومت نے امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی بیعت کر لی ہے تو پہلے دنیوی عہدہ و منصب کی لالچ میں دوسرے لوگوں کی طرح آپ کی بیعت کی۔ لیکن جب یقین ہو گیا کہ نظام عدل میں ظلم کا گزر نہیں تو وہی لوگ مقتول حاکم کے انتقام کا بہانہ لے کر میدان میں اتر آئے اور مختلف علاقوں میں دہشتگردی اور نا امنی پھیلانے لگے۔‌

امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے آخری وقت تک کوشش کی کہ مسلمان آپس میں نہ لڑیں اور ایک دوسرے کا خون نہ بہائیں۔ اس لئے اپنے لشکر کے سپاہی جناب مسلم بن عبداللہ مجاشعی کو قرآن کریم کے ساتھ بھیجا تاکہ دونوں لشکر کے درمیان قرآن کریم بلند کر کے لوگوں کو اتحاد کی دعوت دیں اور تفرقہ سے روکیں لیکن لشکر جمل نے ان کو شہید کر دیا۔

اس جنگ میں لشکر امیر المومنین علیہ السلام سے شہداء کی تعداد 400 سے 5000 تک بیان ہوئی ہے۔ اسی طرح لشکر جمل سے 6000 سے 25000 تک لوگ قتل ہوئے۔ یہ قتل و غارت مادر نامہربان کی مہربانی پر سوالیہ نشان ہے۔

ابن ابی الحدید معتزلی کے مطابق طلحہ و زبیر حاکم شام کے آلہ کار بنے۔

اس جنگ سے قبل عبداللہ بن زبیر نے جھوٹی قسم اور جھوٹی گواہیوں کے ذریعہ اپنی خالہ کے راہ باطل میں کمزور اور سست ارادوں کو مستحکم کیا۔

اگرچہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے جنگ جمل کو فتح کیا لیکن اس کے باوجود آپ نے اپنے مخالفین کو اسیر کر کے غلام و کنیز نہیں بنایا۔ مخالفین کے اموال کو مال غنیمت کے طور پر کسی کو لینے بھی نہیں دیا۔

امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے جب لشکر مخالف کو شکست دے دی اور ان کی سربراہ عائشہ بنت ابی بکر کو انتہائی ادب و احترام کے ساتھ خواتین کے ہمراہ مدینہ منورہ بھیج دیا۔

امیر المومنین علیہ السلام کی جانب سے نیکیوں کا سلسلہ نہ رکا لیکن ادھر سے دشمنی اور عداوت میں کبھی کوئی کبھی نہ آئی۔ یہاں تک کہ جب محراب عبادت میں امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت ہو گئی تو انہوں نے خوشی منائی اور اپنے غلام کا نام اشقی الاولین و الآخرین عبدالرحمن بن ملجم مرادی ملعون کے نام پر عبدالرحمن رکھا۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button