پاکستان میں انتہا پسندی میں اضافہ، شیعہ اور مذہبی اقلیتیں دہشت گرد گروہوں کے حملوں کا نشانہ
سن 1947 کو مسلمانوں کی پناہگاہ کے طور پر قائم ہونے والا ملک پاکستان اب مذہبی انتہا پسندی اور اقلیتوں پر ظلم و ستم کا گڑھ بن چکا ہے۔
اس ملک میں شیعہ اور دیگر مذہبی اقلیتیں دہشت گرد گروہوں کے حملوں کا نشانہ ہیں جبکہ پاکستانی حکومت اس تشدد کے سامنے اکثر خاموش رہتی ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
ہندوستان سے تقسیم کے بعد مسلمانوں کی پناہ گاہ کے طور پر قائم ہونے والا ملک پاکستان آج انتہا پسندی اور مذہبی جبر کی آماجگاہ بن گیا ہے۔
اس ملک میں مذہبی اقلیتوں خصوصا شیعوں کو دہشت گرد گروہوں سے شدید خطرات کا سامنا ہے۔
فرسٹ بوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان، اس اسلامی ملک کو حاصل کرنے کے بجائے جس کا تصور اس کے بانیوں نے کیا تھا اب وہ اندرونی بحرانوں اور انتہا پسندی کا شکار ملک بن چکا ہے۔
یہ مضمون بتاتا ہے کہ پاکستان میں نسلی اور ثقافتی شناختوں نے مذہبی مسائل پر قابو پا لیا ہے۔
اس سے قبائلی تقسیم پیدا ہوئی ہے اور یہ ملک کی سماجی یکجہتی کے لئے سنگین خطرہ بن گیا ہے۔
سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسے انتہا پسند گروہ جو شروع میں شیعہ مخالف گروہوں کے طور پر سرگرم تھے اب پرتشدد تنظیموں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور ملک بھر میں شیعوں کے خلاف خونریز حملے کر رہے ہیں۔
شیعوں کے علاوہ احمدی اقلیت بھی جبر کا شکار ہے اور انہیں سرکاری طور پر "غیر مسلم” کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
اس اقلیت کو ان کی مذہبی رسومات ادا کرنے سے منع کیا جاتا ہے اور ان کی مساجد اور مکانات کو تباہ کیا جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا جیسے سرحدی علاقوں میں سنیوں اور شیعوں کے درمیان خونریز تنازعات جاری ہیں اور پاکستانی حکومت بہت سے معاملات میں خاموش ہے یا سنیوں کی حمایت کرتی ہے۔
یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان ایک محفوظ اور متحد اسلامی ملک بنانے کے اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہا ہے۔