سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کو اقلیتی درجہ برقرار رکھنے کا تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچڈ کی سربراہی میں سات ججوں کی بینچ نے جمعہ کی صبح یہ فیصلہ 4-3 کی اکثریت سے دیا، جس پر یونیورسٹی برادری میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس فیصلے پر سب کی نظریں مرکوز تھیں کیونکہ چیف جسٹس 10 نومبر 2024 کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور ریٹائرمنٹ سے قبل یہ ان کے پانچ بڑے فیصلوں میں سے آخری تھا۔
یہ تنازعہ 1965 میں شروع ہوا تھا جب مرکزی حکومت نے اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم کر کے یونیورسٹی کی خود مختاری کو محدود کر دیا تھا۔ 1967 میں عزیز باشا کیس میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے کیونکہ اسے ایک شاہی قانون کے ذریعے قائم کیا گیا تھا۔ تاہم، چیف جسٹس چندرچڈ کی قیادت میں اکثریت نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کسی ادارے کو اس کی اقلیتی حیثیت سے محروم نہیں کیا جا سکتا، چاہے وہ قانون سازی کے ذریعے ہی کیوں نہ قائم ہوا ہو۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مطابق، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ادارہ کس نے اور کس مقصد سے قائم کیا۔ اگر ایک اقلیتی برادری نے کسی ادارے کو قائم کیا ہے تو وہ آرٹیکل 30 کے تحت اقلیتی حیثیت کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ اکثریتی ججوں کا ماننا ہے کہ آرٹیکل 30 صرف ان اداروں پر لاگو نہیں ہوتا جو آئین کے بعد بنائے گئے ہیں۔ ان کے مطابق "انکارپوریشن” اور "اسٹیبلشمنٹ” کے الفاظ کو یکجا نہیں کیا جا سکتا۔ اس دلیل پر زور دیا گیا کہ اگر اے ایم یو کو شاہی قانون سازی کے ذریعے منظور کیا گیا، تو بھی اس کے اقلیتی کردار پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
ججوں کی اکثریت نے یہ بھی واضح کیا کہ کسی ادارے کو اقلیتی تسلیم کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس کا انتظام بھی اقلیتی افراد کے پاس ہو۔ اقلیتی ادارے سیکولر تعلیم پر زور دے سکتے ہیں اور ان کے انتظامیہ میں اقلیت کے افراد کی شرط نہیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے اے ایم یو کو اقلیتی ادارے کا درجہ برقرار رکھنے کا قانونی حق دیا ہے اور اس سے بھارت میں اقلیتی تعلیمی اداروں کے حقوق کے حوالے سے اہم نظیر قائم ہوئی ہے۔