میانمار کی ریاست راکھین میں شدید جنگ اور فوجی ناکہ بندی نے 20 لاکھ افراد کو بھوک کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ خوراک کی کمی، آمدنی میں کمی اور مہنگائی کے سبب حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں، اقوام متحدہ کے ایک سینئر عہدیدار نے خبردار کیا ہے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق، 2023 کے اواخر میں فوج اور راکھین کی نسلی تنظیم ارکان آرمی کے درمیان دوبارہ شروع ہونے والے تصادم نے خوراک کی شدید کمی، افراط زر اور غربت میں اضافہ کیا ہے۔
یو این ڈی پی کی تحقیق کے مطابق، راکھین میں آمدنی میں کمی ہوئی ہے، اور کئی خاندانوں کو ایک وقت کے کھانے پر گزر بسر کرنا پڑ رہی ہے۔ ریاست کی نصف سے زیادہ آبادی کو ماہانہ آمدنی میں کمی کا سامنا ہے، جس سے بنیادی خوراک خریدنا مشکل ہو چکا ہے۔ چاول اور تیل جیسی بنیادی اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، اور چاول کی پیداوار ریاست کی ضرورت کا صرف 20 فیصد پوری کرنے کی توقع ہے۔
حالات بے گھر افراد کے لئے انتہائی سنگین ہیں، جن میں 5 لاکھ 11 ہزار روہنگیا مہاجرین بھی شامل ہیں۔ ان کا انحصار امداد پر ہے، جسے فوجی ضوابط اور جاری تنازع کی وجہ سے محدود کیا گیا ہے۔ امدادی تنظیمیں خوراک، ادویات اور دیگر ضروریات فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔
اکتوبر 2023 کے بعد تجارتی راستے 8-10 سے کم ہو کر صرف دو رہ گئے ہیں، جس سے راکھین میں اشیاء کی فراہمی رک گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے اپیل کی ہے کہ تمام تجارتی اور انسانی پابندیاں ختم کی جائیں اور امدادی کارکنوں کو بلا روک ٹوک رسائی فراہم کی جائے تاکہ بدترین حالات سے بچا جا سکے۔
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ یہ بحران محض ایک قحط نہیں، بلکہ ایک سیاسی سانحہ ہے جس کے حل کے لئے عالمی سطح پر مداخلت اور سیاسی ثالثی کی ضرورت ہے تاکہ تنازع کی بنیادی وجوہات کو حل کیا جا سکے۔