ترکی کی حکمران جماعت کی فریب کارانہ پالیسیوں کا سلسلہ جاری، ظاہری طور پر فلسطین کی حمایت لیکن پس پردہ اسرائیل کے شانہ بشانہ
رجب طیب اردوغان خود کو فلسطین کا کٹر حامی کے طور پر پیش کرتے ہیں، جبکہ پس پردہ اسرائیل کے ساتھ ہیں۔کچھ رپورٹس بتاتی ہیں کہ ترکی اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کے خلاف لڑ رہا ہے اور اسرائیلی فوج کو فولاد کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ تضادات ظاہر کرتے ہیں کہ اردوغان کی فلسطین کے لئے ظاہری حمایت سیاسی اور اقتصادی مفادات کو برقرار رکھنے کے لئے زیادہ ہے اور انسانی حقوق کے لئے حقیقی وابستگی کی نشاندہی نہیں کرتی ہے۔اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
جہاں ترک صدر رجب طیب اردوغان خود کو فلسطینیوں کے حقوق کے حامی کے طور پر پیش کرتے ہیں وہیں حالیہ انکشافات نے ظاہر کیا کہ ان کی پالیسیاں دھوکے اور منافع خوری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 10000 ترک فوجی اسرائیلی فوج کے شانہ بشانہ فلسطینیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں اور ان میں سے 4 ہزار نے غزہ کے عوام کے قتل عام میں براہ راست حصہ لیا ہے۔
یہ اقدامات ترکی کی حکمران جماعت کی فلسطین کے حوالے سے دوہری پالیسیوں کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں اردوغان ظاہری طور پر فلسطینی عوام کے حقوق کا دفاع کرتے ہیں لیکن پس پردہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
ترکی اردوغان کی قیادت میں اسرائیلی فوج کو فولاد کی سپلائی جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ بر آمادات فلسطین کے نام پر جعلی دستاویزات کے ذریعہ کرتی ہیں۔اگرچہ اس سال فلسطین کو فولاد کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اسٹیل بنیادی طور پر اسرائیلی استعمال کرتا ہے۔
یہ فریب کارانہ کاروباری پالیسیاں جو خطہ میں انسانی بحرانوں کو بڑھاتی ہیں، عالمی سطح پر اردوغان کی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی کوششیں ہیں تاکہ فوائد حاصل کرنے اور اپنا مثبت امیج بنانے کے لٔے فریب اور دوہرے طریقوں سے کامیابی حاصل کی جا سکے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ملکی سیاست میں اردوغان کے پاس اپنے سابق اتحادیوں سے لپٹنے کے لئے ضروری ایمانداری، وفاداری اور جواں مردی نہیں ہے۔ جمال خاشقجی کے قتل جیسے معاملات میں ترکی نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ صرف اپنے مفادات کی تلاش میں ہے نہ کہ انسانی اصولوں اور وہ مادی اور سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے انسانی حقوق اور انسانی جانوں سے آسانی سے نپٹنا ہے۔
یہ رویہ جو ملک کی اور غیر ملکی سیاست میں اکثر دیکھے جاتے ہیں، نے ملک کے اندر اور باہر ترکی کی حکمران جماعت پر عوام کا اعتماد بہت کم کر دیا ہے اور رجب طیب اردوغان کے سیاسی مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ترکی کی حکمران جماعت کے بہت سے تجزیہ کاروں اور مخالفین کا خیال ہے کہ اردوغان فلسطین کی حمایت کا بہانہ بنا کر صرف اپنی ذاتی طاقت کو مضبوط کرنے کے درپے ہیں اور انسانی حقوق حتی کہ مذہبی تعلیمات سے بھی ان کی کوئی حقیقی وابستگی نہیں ہے۔