نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے طرز عمل پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جو کہ وقف ترمیمی بل پر غور کرنے اور متعلقہ فریقین سے رائے مشورہ لینے کے لئے تشکیل دی گئی ہے۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ جے پی سی نے دستوری اور پارلیمانی ضابطوں کی خلاف ورزی کی ہے اور غیر متعلقہ تنظیموں سے رائے طلب کر کے جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے اس مسئلے پر ایک پریس ریلیز جاری کی، جس میں انہوں نے جے پی سی کے طرز عمل کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ جے پی سی نے معتبر اداروں کے بجائے بار کونسل، مرکزی وزارتوں، آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں اور غیر متعلقہ افراد سے رائے لی ہے، جو وقف کے معاملات میں براہِ راست دلچسپی یا متعلقہ تجربہ نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ جے پی سی کو صرف ان افراد اور تنظیموں سے رائے لینی چاہیے تھی جن کا تعلق وقف امور سے ہو۔
پریس ریلیز میں یہ بھی بتایا گیا کہ جے پی سی کے کام کاج پر حزب اختلاف کے اراکین نے بھی سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کو خط لکھ کر جے پی سی کے چیئرمین کے مطلق العنان رویے پر اعتراض کیا ہے۔ حزب اختلاف کے ارکان کا دعویٰ ہے کہ کمیٹی کی میٹنگز کو اس طرح ترتیب دیا جا رہا ہے کہ اراکین کو مختلف آراء کا جائزہ لینے اور ان پر بات کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔
بورڈ کے ترجمان نے کہا کہ جب وقف ترمیمی بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا تو حزب اختلاف کے اراکین اور مسلم تنظیموں نے اس پر شدید اعتراضات کیے تھے۔ اسی بنیاد پر یہ بل جے پی سی کو بھیجا گیا تھا تاکہ مزید بحث و مباحثے کے بعد کوئی متفقہ نتیجہ نکالا جا سکے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ جے پی سی غیر متعلقہ افراد کی آراء کو نظر انداز کرے اور مستند مسلم تنظیموں اور ماہرین کی رائے کو اہمیت دے۔
آخر میں، بورڈ نے جے پی سی کے چیئرمین سے اپیل کی ہے کہ وہ پارٹی مفادات سے بالا ہوکر دستوری اور جمہوری تقاضوں کے مطابق فیصلہ کریں۔ بورڈ نے امید ظاہر کی ہے کہ جے پی سی اپنی رپورٹ عجلت میں پیش کرنے کے بجائے طے شدہ ضوابط کے تحت تمام اراکین کے ساتھ مکمل بحث و مباحثہ کے بعد کسی نتیجے پر پہنچے گی۔