خبریںدنیاہندوستان

یوپی مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ: سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کردیا

یوپی مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کے الہٰ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا۔ چیف جسٹس چندر چڈ نے کہا کہ صرف اس لئے کہ مدارس کیلئے قانون سازی میں کسی قسم کی مذہبی تربیت شامل ہے اسے غیر آئینی نہیں بناتا۔

اتر پردیش میں ۱۶؍ہزار مدارس کو بڑی راحت د ی جب چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچنڈ کی قیادت میں تین ججوں کی بنچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا جس نے قانون کو غیر آئینی اور سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت سے کہا تھا کہ وہ مدرسے کے طلباء کو باقاعدہ اسکولنگ سسٹم میں شامل کرے۔ بنچ جس میں جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا بھی شامل ہیں، نے کہا کہ ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے غلطی کی ہے کہ اگر قانون سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے ختم کر دینا چاہئے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ حکومت (مدارس میں ) تعلیم کے معیار کو ریگولیٹ کر سکتی ہے۔ تعلیم کے معیار سے متعلق ضوابط مدارس کی انتظامیہ میں مداخلت نہیں کرتے ہیں ۔

بنچ نے مزید کہا کہ یہ ایکٹ مدارس کے روزمرہ کے انتظام میں براہ راست مداخلت نہیں کرتا ہے۔ یہ قانون ریاست کی مثبت ذمہ داری سے مطابقت رکھتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ بچوں کو مناسب تعلیم حاصل ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صرف اس لئے کہ مدارس کیلئے قانون سازی میں کسی قسم کی مذہبی تربیت شامل ہے اسے غیر آئینی نہیں بناتا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایکٹ صرف فاضل اور کامل کے تحت ڈگریاں دینے میں غیر آئینی ہے کیونکہ اس شق سے یو جی کے ضوابط کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایکٹ اتر پردیش میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے ہے اور یہ حکومت کی اس ذمہ داری کے مطابق ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ طلباء پاس آؤٹ ہوں اور اچھی زندگی گزاریں۔

متعلقہ خبریں

Back to top button