اسلامی دنیاخبریںسعودی عرب

11 انسانی حقوق کے اداروں کا فیفا پر دباؤ: سعودی عرب میں حقوقِ انسانی کی صورتحال پر نظرِ ثانی کا مطالبہ

11 انسانی حقوق کے اداروں نے فیفا سے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال پر جامع اور معتبر جائزہ لیا جائے۔ انہوں نے بین الاقوامی قانونی ادارے کلیفورڈ چانس کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے حوالے سے کی گئی غیرمکمل رپورٹنگ پر شدید تنقید کی ہے اور ایک مفصل جائزے کا مطالبہ کیا ہے۔

ان اداروں کا کہنا ہے کہ کلیفورڈ چانس کی رپورٹ نے سعودی عرب میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کر دیا ہے اور یہ رپورٹ خطرات کو مناسب انداز میں نہیں اجاگر کرتی، خاص طور پر اس تناظر میں کہ سعودی عرب کو 2034 میں فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کا موقع مل سکتا ہے۔ انسانی حقوق کے ان اداروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر سعودی عرب میں ورلڈ کپ جیسے بڑے عالمی ایونٹ کی میزبانی دی گئی تو یہ انسانی حقوق کے مزید مسائل اور مزدوروں کے استحصال کا باعث بن سکتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فیفا سے مطالبہ کیا ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے ایک موثر اور جامع حکمتِ عملی مرتب کی جائے۔ یہ مطالبات اس پس منظر میں ہیں کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال پر عالمی برادری کی طرف سے کئی برسوں سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کو انسانی حقوق کے حوالے سے جوابدہ ٹھہرایا جانا ضروری ہے، اور ایسے کسی ایونٹ کی میزبانی دینا جس میں لاکھوں افراد شریک ہوں، مزید مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ ان اداروں نے مطالبہ کیا ہے کہ فیفا سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال کا ازسرنو اور غیر جانبدارانہ جائزہ لے اور اس حوالے سے مزید شفافیت کا مظاہرہ کرے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حال ہی میں سعودی عرب اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی رکنیت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اس ناکامی کی وجہ مختلف انسانی حقوق کے اداروں اور ممالک کی مخالفت تھی، جو سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال، خصوصاً شیعہ کمیونٹی، خواتین کے حقوق اور تارکین وطن مزدوروں کے ساتھ برتے جانے والے سلوک پر تنقید کر رہے تھے۔ انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں آزادیِ اظہار، اور شہری حقوق کی صورتحال میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سطح پر ایک مثبت تصویر پیش کی جا سکے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

Back to top button