داعش، ایران کی مشرقی سرحدوں میں سیکیورٹی کا نیا چیلنج
شدت پسند سنی دہشت گرد گروہ داعش نے ایران کی مشرقی سرحدوں میں اپنی سرگرمیاں بڑھا کر ایران کی قومی سلامتی کو چیلنج کر دیا ہے۔
جبکہ طالبان اس گروپ سے لڑنے کا دعوی کرتے ہیں، افغانستان اور پاکستان میں شدت پسند سنی گروپ داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی خبروں میں ایران کے لئے سنگین خطرات کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارے ساتھی رپورٹر کی رپورٹ پر توجہ دیں۔
ایران کو شدت پسند سنی دہشت گرد گروہ داعش سے خطرات کا سامنا ہے جو افغانستان اور پاکستان کی سرزمین سے ہوتے ہوئے ملک کی مشرقی سرحدوں تک پہنچ گیا ہے۔
افغانستان میں برسر اقتدار طالبان حکومت کا دعوی ہے کہ وہ شدت پسند سنی گروپ داعش سے لڑ رہے ہیں۔ لیکن رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ گروپ اب بھی مضبوط اور اپنی سرگرمیوں کو بڑھا رہا ہے۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حال ہی میں اعلان کیا کہ طالبان گروپ کی فورسز نے صوبہ غور میں داعش کی ایک ٹیم کو نشانہ بنایا تھا جبکہ ان دعووں میں ایران کی سرحدی علاقوں میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں خدشات کو ظاہر کیا ہے۔
ایران سے متصل صوبہ غور اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں شدت پسند سنی گروپ داعش کی سرگرمیوں میں توسیع سے ایران کی قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
اس کے علاوہ سیاسی اور اقتصادی بحرانوں سے نمٹنے میں پاکستانی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے اس ملک میں داعش کی دہشت گردانہ کاروائیوں کے جاری رہنے اور ایران کے لئے اس کے نتائج کا امکان بڑھ گیا ہے۔
ان خطرات سے نمٹنے کے لئے ایران نے افغانستان میں اپنے نمائندوں کو سفیر اور نائب سفیر مقرر کیا ہے اور طالبان کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے پر زور دیا ہے۔
اس صورتحال نے ایران کی مشرقی سرحدوں کی سلامتی اور خطہ پر دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کے اثرات کے بارے میں شدید خدشات پیدا کر دیے ہیں۔
اگرچہ خطہ کے ممالک طالبان سے ان گروہوں کا مقابلہ کرنے کی توقع رکھتے ہیں لیکن عملی طور پر اس گروپ کی کار کردگی افغانستان میں سلامتی اور استحکام فراہم کرنے میں ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔